بنیامین نیتن یاہو کا اعلان: تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے فوری مذاکرات، غزہ پر کنٹرول کے لیے فیصلہ کن مرحلے میں داخل

اسرائیلی وزیراعظم کا غزہ ڈویژن کا دورہ

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے جنوبی کمان کے تحت قائم غزہ ڈویژن کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے آئی ڈی ایف (اسرائیلی دفاعی فورسز) اور وزیر دفاع کی جانب سے پیش کیے گئے منصوبوں کا جائزہ لیا۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر موجود ہیں تاکہ ان منصوبوں کی منظوری دے سکیں جو اسرائیل کی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ یہ دورہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسرائیل اس وقت جنگ کے ایک اہم اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔

فیصلہ کن فتح کے لیے عزم

نیتن یاہو نے ویڈیو پیغام میں کہا، “ہم فیصلہ کن فتح کے مرحلے میں ہیں۔ ہمارا مقصد غزہ شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا اور حماس کو شکست دینا ہے۔” انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل کی فوجی کارروائیاں اب اپنے عروج پر ہیں اور وہ دشمن کو شکست دینے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہے ہیں۔ یہ بات نہ صرف اسرائیل کی عسکری حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے بلکہ حماس کو سخت پیغام بھی ہے کہ اب معاملہ مصالحت کا نہیں، بلکہ فتح کا ہے۔

یرغمالیوں کی رہائی اور مذاکرات کی ہدایت

نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ انہوں نے تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے فوری مذاکرات شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ اس وقت ختم ہوگی جب حماس تمام یرغمالیوں کو ایک ساتھ رہا کرے گی اور اسرائیل کی تمام شرائط کو تسلیم کرے گی۔ اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ یرغمالیوں کی سلامتی اسرائیل کی جنگی پالیسی کا اہم حصہ ہے اور اس حوالے سے مذاکرات کو ترجیح دی جا رہی ہے، لیکن یہ مذاکرات صرف تب ممکن ہوں گے جب حماس اسرائیلی مطالبات تسلیم کرے گی۔

غزہ پر کنٹرول اور حماس کی شکست

نیتن یاہو نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی کا مرکزی ہدف ہے۔ آئی ڈی ایف اور وزیر دفاع کی جانب سے پیش کردہ منصوبوں میں غزہ شہر کو حماس کے قبضے سے آزاد کروانا شامل ہے تاکہ علاقے میں پائیدار امن قائم کیا جا سکے۔ یہ منصوبہ اس خطے میں اسرائیل کی سلامتی کے لیے نہایت اہم سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ حماس کی سرگرمیاں اسرائیلی شہروں کو مسلسل خطرے میں ڈال رہی ہیں۔

اسرائیل کی جنگی پالیسی کا مستقبل

نیتن یاہو کے بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل اس جنگ کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں جب تک کہ حماس مکمل طور پر یرغمالیوں کی رہائی کرے اور اسرائیل کی شرائط کو قبول نہ کرے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں امن مذاکرات یا جنگ بندی کی کوششیں تب ہی کامیاب ہو سکیں گی جب دونوں طرف سے بنیادی شرائط پوری ہوں۔

عالمی سطح پر ردعمل اور ممکنہ اثرات

نیتن یاہو کے اس اعلان کے عالمی سطح پر مختلف ردعمل سامنے آئے ہیں۔ بعض ممالک نے یرغمالیوں کی رہائی کو سلامتی مذاکرات کی اہم شرط قرار دیا ہے جبکہ دیگر نے اسرائیل کی جنگی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس وقت خطے کی صورتِ حال نہایت نازک ہے، اور اس طرح کے بیانات سے امن کے امکانات اور بھی پیچیدہ ہو گئے ہیں۔

نتیجہ:

بنیامین نیتن یاہو کا یہ دورہ اور ان کے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں اپنی عسکری کارروائیوں کو مزید تیز کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ یرغمالیوں کی سلامتی کے حوالے سے مذاکرات کے لیے بھی تیار ہے۔ اگر حماس اسرائیل کی شرائط قبول کرتی ہے تو جنگ بندی کا امکان ہو سکتا ہے، ورنہ جنگ اپنے تمام تر شدت کے ساتھ جاری رہ سکتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں