بھارت کی فتح، 🇵🇰 پاکستان کی شکست — لیکن سب کی نظریں ایک “مصافحے” پر

ایشیا کپ 2025 کے چھٹے میچ میں دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے روایتی حریفوں کے سنسنی خیز ٹاکرے میں بھارت نے پاکستان کو سات وکٹوں سے شکست دے دی۔ لیکن جہاں میچ کا نتیجہ ایک واضح کامیابی تھا، وہیں میچ کے بعد پیش آنے والا ایک لمحہ سوشل میڈیا اور عوامی بحث کا محور بن گیا — بھارتی اور پاکستانی کپتانوں کے درمیان مصافحہ نہ ہونا۔
میچ کی جھلکیاں
پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 238 رنز کا مجموعہ کھڑا کیا، جس میں بابر اعظم کی نصف سنچری اور افتخار احمد کی جارحانہ اننگ قابل ذکر رہی۔ جواب میں بھارت نے شُبھمن گل اور ویرات کوہلی کی شاندار پارٹنرشپ کی بدولت ہدف با آسانی تین وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا۔ کوہلی 87 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے اور میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔
کھیل کے بعد “خاموشی کا لمحہ”
روایتی طور پر جب میچ ختم ہوتا ہے، تو دونوں ٹیموں کے کپتان ہاتھ ملاتے ہیں — ایک سپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ، جسے دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے۔ مگر اس بار نہ جانے کیا ہوا کہ میچ ختم ہوتے ہی پاکستانی کپتان بابر اعظم اور بھارتی کپتان روہت شرما ایک دوسرے سے بظاہر دور رہے۔
نہ کوئی ہاتھ ملایا گیا، نہ کوئی مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا — صرف ایک سرسری نظر، اور پھر دونوں اپنے اپنے کیمپ میں واپس چلے گئے۔
یہ لمحہ ٹی وی کیمروں اور شائقین کی نظروں سے اوجھل نہ رہ سکا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہو گئیں، اور قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔
سوشل میڈیا پر ردِعمل: “کیا واقعی تعلقات اتنے کشیدہ ہیں؟”
ٹوئٹر، انسٹاگرام اور فیس بک پر صارفین نے اس عمل کو مختلف زاویوں سے دیکھا:
کچھ نے اسے دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات کی عکاسی قرار دیا؛
کچھ کا ماننا تھا کہ یہ محض لمحاتی جذبات تھے، اور شکست کا دُکھ شاید کپتان کے رویے پر اثر انداز ہوا؛
جبکہ کئی صارفین نے دونوں کپتانوں سے زیادہ ذمہ داری اور اسپورٹس مین شپ دکھانے کا مطالبہ کیا۔
ایک صارف نے لکھا:
“جیت اور ہار کھیل کا حصہ ہے، لیکن اسپورٹس مین اسپرٹ ہر حال میں برقرار رہنی چاہیے۔”
جبکہ ایک بھارتی صارف نے کہا:
“ہم نے تو ہمیشہ روہت کو ایک بڑے دل والا کھلاڑی پایا ہے، لیکن شاید اس بار معاملہ مختلف تھا۔”
سابق کرکٹرز کا مؤقف
سابق پاکستانی کپتان رمیز راجہ نے ایک نجی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا:
“میچ جیتنے یا ہارنے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آپ میدان میں کیا رویہ دکھاتے ہیں۔ کپتانوں کو چاہیے کہ وہ مثال قائم کریں، نہ کہ تنازع کا باعث بنیں۔”
ادھر بھارتی سابق اوپنر گوتم گمبھیر نے بھی تبصرہ کیا:
“ایسا ہوتا ہے جب جذبات قابو سے باہر ہو جائیں۔ دونوں ٹیموں کو خود پر قابو رکھنا سیکھنا ہوگا، خاص طور پر جب دنیا دیکھ رہی ہو۔”
کیا یہ واقعی اتنا بڑا مسئلہ ہے؟
کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس واقعے کو بلاوجہ بڑھایا جا رہا ہے، اور شاید یہ محض ایک اتفاق تھا — ہو سکتا ہے کہ دونوں کپتان مختلف سمتوں میں مصروف ہو گئے ہوں، یا شاید میڈیا نے ایک عام لمحے کو غیر معمولی بنا دیا ہو۔
تاہم کرکٹ جیسے کھیل میں جہاں ہر حرکت کیمرے کی آنکھ میں قید ہوتی ہے، وہاں ایسی “چھوٹی باتیں” بھی بڑی علامت بن جاتی ہیں۔
کھیل سے آگے کی کہانی
پاک-بھارت کرکٹ صرف کھیل نہیں، ایک جذباتی، ثقافتی اور سیاسی تجربہ بھی ہے۔ ہر کیچ، ہر چھکا، اور اب ہر “مصافحہ” — یا اس کی غیر موجودگی — ایک بیانیہ بن جاتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ میچ میں یہ دونوں کپتان اس بیانیے کو کس سمت لے جاتے ہیں: تلخی کی طرف، یا روایتی گرمجوشی کی جانب۔