جب 44 ہزار ارب پر ملک دیوالیہ کہا جا رہا تھا، تو 94 ہزار ارب پر ترقی کا دعویٰ؟ یہ تضاد ہے یا عوام کے شعور سے کھلواڑ؟

ابتدائی پس منظر: قرضہ اور دیوالیہ پن کا بیانیہ

اپریل 2022 میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ملک کا مجموعی قرضہ 44 ہزار ارب روپے تھا۔ اُس وقت کی حکومت پر شدید تنقید کی جا رہی تھی کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، معیشت بیٹھ چکی ہے، اور ریاست چلانے کے لیے پیسے نہیں بچے۔ میڈیا، حزب اختلاف، ماہرین معیشت اور سوشل میڈیا پر ہر جگہ یہی شور تھا کہ موجودہ قرضوں کی سطح ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے۔

لیکن آج، چند سال بعد، جب اسٹیٹ بینک کی رپورٹ بتاتی ہے کہ قرضہ 94 ہزار 197 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے — یعنی صرف دو سال میں قرضہ دو گنا سے بھی زائد ہو چکا ہے — تو حکومت، وزرا اور ان کے ترجمان مسلسل دعویٰ کر رہے ہیں کہ “ملک ترقی کر رہا ہے”، “معیشت درست سمت میں جا رہی ہے”، اور “سب اچھا ہے”۔


سوال یہ ہے: کیا ترقی کا مطلب قرضہ دوگنا کرنا ہے؟

یہ وہ بنیادی تضاد ہے جس پر سنجیدہ سوالات اٹھنا شروع ہو چکے ہیں۔ اگر 44 ہزار ارب پر دیوالیہ کا شور تھا، تو 94 ہزار ارب پر جشن کیسا؟ کیا معیشت کی بنیادی تعریفیں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ بدل جاتی ہیں؟ کیا قرضے کا بڑھنا اب ترقی کی علامت بن چکا ہے؟

درحقیقت، ترقی کا مطلب ہے خود کفالت، مالی استحکام، برآمدات میں اضافہ، عوامی فلاح، اور معاشی خودمختاری۔ اگر قرضہ دوگنا ہو رہا ہو اور معیشت اب بھی آئی ایم ایف، عالمی بینک یا دیگر ممالک سے قرض لینے پر انحصار کر رہی ہو، تو یہ ترقی نہیں، بلکہ “نرمی سے چلتا دیوالیہ پن” کہلائے گا۔


قرض بڑھنے کے اثرات: معیشت پر دباؤ، عوام پر بوجھ

جب قرض بڑھتا ہے، تو اس کے نتیجے میں:

  • ہر سال سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے

  • دفاع، تعلیم، صحت جیسے اہم شعبوں کا بجٹ متاثر ہوتا ہے

  • روپے کی قدر کمزور ہوتی ہے، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے

  • عوامی سبسڈی ختم کرنی پڑتی ہے، جس سے بجلی، گیس، پیٹرول مہنگے ہوتے ہیں

  • روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں، اور معیشت کا پہیہ سست ہو جاتا ہے

تو کیا یہ سب کچھ ہو رہا ہے؟ جی ہاں۔ آج پاکستانی عوام مہنگائی کی بلند ترین سطح پر زندگی گزار رہے ہیں، بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں، روپے کی قدر غیر مستحکم ہے، اور روزگار کا بحران بڑھ رہا ہے۔ پھر سوال یہ ہے: ترقی کہاں ہے؟


عوام کا شعور: اب ٹیکنالوجی کا دور ہے، سوال کیے جا رہے ہیں

اب وہ وقت نہیں رہا جب حکومتیں محض بیانات سے عوام کو بہلا لیا کرتی تھیں۔ ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا، اور ڈیجیٹل میڈیا کی بدولت عوام اب ہر بیان، ہر فگر، اور ہر معاشی دعوے کی حقیقت خود جانچنے لگے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹیں، معاشی تجزیے، ماہرین کی رائے اور پرانے بیانات اب سب کچھ صرف ایک کلک کی دوری پر ہے۔

عوام دیکھ رہے ہیں کہ حکومت ایک طرف “معاشی بہتری” کی بات کر رہی ہے، لیکن دوسری طرف بنیادی سہولیات مہنگی، روزگار محدود، اور کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار ہیں۔ ایسے میں ترقی کا بیانیہ صرف ایک سیاسی نعرہ محسوس ہوتا ہے، حقیقت نہیں۔


سیاسی بیانیے یا معاشی سچائی؟

یہ ایک اہم سوال ہے: کیا موجودہ حکومت صرف بیانیہ بنانے میں ماہر ہے، یا واقعی وہ زمینی سطح پر معاشی بہتری لا رہی ہے؟ کیوں کہ اگر قرضہ بڑھ رہا ہے، مہنگائی عروج پر ہے، اور معیشت کا پہیہ سست ہے، تو پھر یہ دعویٰ کہ “ملک ترقی کر رہا ہے” صرف ایک فریب ہے — ایک چمکتا ہوا سیاسی غبارہ، جو حقائق کی سوئی سے پھٹ سکتا ہے۔


حل کیا ہے؟ صرف قرض سے نہیں، خودکفالت سے ترقی آئے گی

پاکستان کو اگر واقعی ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو محض قرضوں سے کام نہیں چلے گا۔ ہمیں ضرورت ہے:

  • صنعتی پیداوار بڑھانے کی

  • برآمدات میں اضافہ کرنے کی

  • درآمدات پر انحصار کم کرنے کی

  • زرعی اصلاحات کی

  • تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی

  • ٹیکس نظام کی اصلاح اور کرپشن کے خاتمے کی

ترقی کا مطلب یہ نہیں کہ سڑکیں بنیں، عمارتیں کھڑی ہوں یا میگا پراجیکٹس کا افتتاح ہو۔ ترقی تب ہوگی جب ملک اپنی آمدن سے چلنے کے قابل ہو، عوام خوشحال ہوں، اور نوجوانوں کو روزگار میسر ہو۔


 دوہرے معیار عوام کو مزید بے زار کر رہے ہیں

موجودہ حکومت کا رویہ اس تضاد کی علامت ہے جو پاکستان کی سیاست میں برسوں سے جاری ہے۔ جب اقتدار میں نہیں ہوتے تو ہر خرابی کا شور، اور جب حکومت میں آتے ہیں تو وہی اقدامات “ترقی” بن جاتے ہیں۔ اس دوغلی پالیسی سے عوام اب بیزار ہو چکے ہیں۔ انہیں حقائق چاہیے، وعدے نہیں۔ اب وہ پوچھ رہے ہیں: اگر 44 ہزار ارب پر دیوالیہ تھے تو 94 ہزار ارب پر ترقی کیسے ہو رہی ہے؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں