“سیلاب متاثرین کو اب چوروں کا خوف بھی، گھر چھوڑنے میں ہچکچاہٹ بڑھ گئی!”

سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد جہاں متاثرین کو اپنے گھروں کی بربادی اور نقصان کا سامنا ہے، وہیں اب چوروں اور لوٹ مار کی وارداتوں نے ان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں سیکورٹی کے ناقص انتظامات اور پولیس کی غیر مؤثر کارکردگی کی وجہ سے چوروں نے بے دردی سے گھروں میں گھس کر قیمتی سامان، نقدی اور قیمتی اشیاء لوٹنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

گھر چھوڑنے میں ہچکچاہٹ:

سیلاب زدگان اپنی جان و مال کی حفاظت کے خوف سے امدادی مراکز یا محفوظ مقامات پر جانے سے گریزاں ہو گئے ہیں۔ کئی لوگ اپنے بکھرے ہوئے سامان کے ساتھ گھروں میں ہی ٹھہرنا ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ ان کے لیے گھر چھوڑنا اب زیادہ خطرناک ہو گیا ہے۔ چوروں کی بڑھتی وارداتوں نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ شاید گھر میں رہنا اور اپنی چیزوں کی حفاظت خود کرنا بہتر ہے۔

سیکیورٹی کا فقدان:

علاقے کے کئی متاثرین کا کہنا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ ان کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر رہی، جس کی وجہ سے چور بے خوف گھروں میں داخل ہو رہے ہیں۔ بعض علاقوں میں تو چوروں نے اس قدر دھیما دھیما کام کیا کہ متاثرین خود بھی خوفزدہ ہیں اور سیکیورٹی کے نام پر مکمل خاموشی دیکھ کر مایوسی کا شکار ہیں۔

معاشرتی اثرات:

سیلاب کے باعث پہلے ہی لوگ ذہنی و جسمانی دباؤ کا شکار ہیں، اب چوروں کی وارداتوں نے ان کی ذہنی کیفیت کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ متاثرین نہ صرف اپنے گھرانے کی حفاظت کے لیے پریشان ہیں بلکہ اپنی عزت و ناموس کی بھی حفاظت کی فکر میں مبتلا ہیں۔


حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری:

سیلاب متاثرین کی حفاظت حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ فوری طور پر سیکیورٹی فورسز کی تعداد میں اضافہ، متاثرہ علاقوں میں گشت اور متاثرین کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ بلا خوف اپنے گھروں سے دور جا سکیں۔

سیلاب کی تباہ کاریوں نے نہ صرف لوگ بے گھر کیا بلکہ اب چوروں کی دھونس نے ان کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو متاثرین کی زندگی مزید خطرے میں پڑ سکتی ہے، اور وہ اپنے گھر چھوڑنے سے باز رہیں گے جس سے امدادی کام بھی متاثر ہوں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں