غزہ پر اسرائیلی بمباری نہ تھم سکی — گزشتہ 24 گھنٹوں میں 83 فلسطینی شہید، درجنوں زخمی!

فلسطینی علاقے غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 83 معصوم فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین، بچے، اور بوڑھے افراد کی ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں شدید زخمی افراد غزہ کے اسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق، اسرائیلی حملے اس قدر شدید اور وسیع پیمانے پر ہیں کہ بیشتر ہلاکتیں رہائشی عمارتوں پر بمباری کے نتیجے میں ہوئیں۔ ان حملوں میں اسکول، پناہ گزین کیمپ، بازار، اور مساجد بھی نشانہ بنی ہیں، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صرف عسکری کارروائی نہیں بلکہ ایک اجتماعی سزا ہے۔

اسپتالوں میں قیامت کا منظر:
غزہ کے اسپتالوں میں زخمیوں کا تانتا بندھا ہوا ہے، مگر طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ کئی زخمی بروقت علاج نہ ملنے کے باعث جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق، بجلی، ایندھن، دواؤں اور بنیادی سازوسامان کی شدید قلت نے صورتحال کو ناقابلِ برداشت بنا دیا ہے۔

انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں:
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں، بشمول ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل، نے اسرائیلی بمباری کو جنگی جرائم قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شہری آبادی کو دانستہ نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، مگر تاحال کسی عملی اقدام کے آثار نظر نہیں آتے۔

اسرائیلی مؤقف اور عالمی ردعمل:
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ صرف حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے “ٹھکانوں” کو نشانہ بنا رہی ہے، مگر زمینی حقائق اس دعوے کو رد کرتے ہیں۔ چونکہ حملوں میں بارہا وہ علاقے متاثر ہو رہے ہیں جہاں صرف عام شہری موجود ہوتے ہیں، اس لیے عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل پر تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔

تاہم امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی طاقتیں اب تک اسرائیل کے حقِ دفاع کے بیانیے کو ہی دہرا رہی ہیں، جس پر مسلم دنیا شدید برہمی کا اظہار کر رہی ہے۔ ترکی، ایران، ملائشیا اور پاکستان جیسے ممالک نے ان حملوں کی شدید مذمت کی ہے اور فوری عالمی مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔

غزہ کے عوام کا حال:
غزہ میں خوراک، پانی، بجلی اور ایندھن کی شدید قلت ہے۔ ہزاروں افراد اپنے گھر بار کھو چکے ہیں اور کھلے آسمان تلے یا اقوامِ متحدہ کے کمزور کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ بچے ذہنی دباؤ اور صدمے کا شکار ہیں، جب کہ والدین اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر بچوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔



غزہ ایک کھلا قبرستان بن چکا ہے۔ جب تک عالمی ضمیر بیدار نہیں ہوتا اور فوری جنگ بندی کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے جاتے، فلسطینیوں پر ظلم کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ صرف ایک انسانی بحران نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک اخلاقی امتحان ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں