ملیر میں شاہراہِ بھٹو منصوبے کے خلاف آوازیں بلند — ماحولیاتی تباہی، اربوں کا نقصان، اور عوامی بے دخلی کا الزام

Road

شاہراہِ بھٹو: ماحولیاتی تباہی، عوامی نقصان اور شفافیت کی کمی کا مکمل تجزیہ

تعارف: طریقۂ کار سے تجاوز

ملیر کے رہائشی، ماحول دوست اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے سندھ حکومت سے کہا ہے کہ وہ شاہراہِ بھٹو (سابق مالیر ایکسپریس وے) منصوبہ منسوخ کر دے۔ سیکشنز کا گرنا، سیلابی میدان پر تعمیر اور زمینوں کی تباہی — یہ سب اس منصوبے کے نقصانات ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔


مقامی اعتراضات اور تنقیدی پہلو

  • منصوبہ ملیر ندی کے فلوڈ پلین اور سیلابی علاقے پر بنایا جا رہا ہے، جو قدرتی آبی راہوں کے لیے خطرہ ہے۔

  • ماہرین اور مقامی لوگوں نے 2022 سے ان پُبلک ہیئرنگز اور عوامی اعتراضات کے ذریعے خطرات کی وارننگ دی ہوئی تھی، مگر انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔


مالیاتی اور اقتصادی پہلو

  • منصوبے کی ابتدائی لاگت تقریباً 27.5 ارب روپے تھی، جو اب تقریباً 55 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے — دوگنا اضافہ، جس کا بوجھ عوامی خزانہ اور قرضوں پر پڑے گا۔ The 

  • حکومت کا دعویٰ ہے کہ شاہراہِ بھٹو ٹریفک کی روانی اور سفر کے وقت میں کمی لائے گی، مگر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی حفظان صحت اور نافذعملی کے خرچ اور نقصان سفر کے فائدے سے کہیں زیادہ ہوں گے۔


سماجی نقصان اور بے دخلی

  • کئی دیہات متاثر ہو رہے ہیں، زمینیں تباہ ہیں، اور کسان اپنی کھیتی باڑی سے محروم ہو رہے ہیں۔

  • بے دخلی کے بدلے میں معاوضے مکمل نہیں دیے گئے یا وہ مناسب نہیں ہیں۔ مقامی لوگ احتجاج کے باوجود مناسب متبادل یا ان کی زمینوں کے معاوضے کے حق سے محروم ہیں۔


قانونی اور ماحولیاتی جائزہ (EIA) کی حالت

  • منصوبے کی ماحولیاتی اثرات کی رپورٹ (EIA) اپریل 2022 میں منظوری دی گئی تھی، مگر یہ فیصلہ سندھ ہائی کورٹ میں زیرِ التواء ہے۔

  • سندھ کا ماحولیاتی تحفظ ٹربیونل بھی درخواست گزاروں کی شکایات کو رد کر چکا ہے، اگرچہ انہوں نے مشروط نگرانی کمیٹی بنائی ہے تاکہ معیارات پر عمل ہو۔


حکومت کا مؤقف اور جوابی دعوے

  • حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ شاہراہِ بھٹو ایکسپریس وے منصوبہ شہریوں کی سہولت کے لیے ہے، ٹریفک کے باعث وقت کی بچت ہو گی، اور صنعتی علاقوں سے نقل و حمل بہتر ہوگی۔

  • سندھ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ پراجیکٹ ابھی مکمل نہیں ہوا، کچھ حصے زیرِ تعمیر ہیں، اور جو تصاویر یا رپورٹس سوشل میڈیا پر آ رہی ہیں وہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔

  • زرعی علاقوں اور آبادی کی حفاظت کے لیے منصوبے کے مختلف حصوں میں elevated structures یا انٹرچینجز بنائے جا رہے ہیں، جیسا کہ کورنگی کاسوے انٹرچینج اور ملحقہ پل کے ڈیزائن کی منظوری دی گئی ہے۔


نتائج اور متبادل حکمتِ عملی

  • مسلسل مرمت اور نقصان کی سرکاری لاگت اضافہ کرتی جائے گی — سیلاب، موسمی رویّوں اور ماحولیاتی بد اسلوبیوں کی وجہ سے۔ یہ منصوبہ پائیدار ثابت نہیں ہوگا اگر ماحولیاتی تحفظ اور مقامی مفادات کو ترجیح نہ دی جائے

  • متبادل حل کے طور پر تجویز کی جا رہی ہیں: فلوڈ ریزِیلنٹ انفراسٹرکچر، ندی کے پلین کی حفاظت، مؤثر ڈرینیج سسٹم، اور شفاف کمیونٹی مشاورت۔

  • مناسب معاوضہ، مقامی لوگوں کی شرکت، اور ماحولیاتیاتی اور قانونی جائزے کی مکمل شفافیت ضروری ہے۔


اختتامیہ

شاہراہِ بھٹو منصوبہ کراچی کے رہن سہن، نظامِ قدرت اور عوام کی بنیادوں کو متاثر کر رہا ہے۔ جب ترقی منصوبوں کی شکل اختیار کرتی ہے، مگر بنیادی دعوے — ماحول کی حفاظت، شفافیت، انسانی حقوق — پورے نہیں کیے جاتے، تو وہ ترقی نہیں بلکہ تباہی کی جڑ بن جاتے ہیں۔

یہ وقت ہے کہ عوام، ماہرین اور عدالتیں مل کر یہ طے کریں کہ آیا یہ منصوبہ واقعی عوام کی خدمت کر رہا ہے، یا یہ صرف چند کی سہولت اور چند کی دولت کا ساز و سامان ہے؟ اور اگر منزل یہی ہو، تو کیوں نہ ایک ایسا راستہ اختیار کیا جائے جو سب کے لیے محفوظ، ماحول دوست اور نظم و انصاف پر مبنی ہو؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں