“غزہ کے آسمان پر پھر آگ برسی، اور زمین پر ایک بار پھر انسانیت رو دی”

غزہ ایک بار پھر جنگ کی لپیٹ میں ہے، اور اس بار معاملہ صرف میزائلوں، حملوں اور یرغمالیوں کا نہیں—یہ کہانی ہے بے گھر بچوں کی، جلے ہوئے خیموں کی، اور ان ماؤں کی جن کی گود خالی ہو گئی۔

حماس نے اسرائیل کی تازہ جنگ بندی کی پیشکش کو باضابطہ طور پر مسترد کر دیا ہے۔ ان کا مؤقف واضح ہے: وہ جزوی معاہدے نہیں چاہتے جو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل ہوں۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایک مکمل معاہدہ چاہتے ہیں جس میں جنگ کا خاتمہ ہو، فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں، اور بدلے میں باقی تمام یرغمالیوں کو آزاد کر دیا جائے۔

خلیل الحیا، جو مذاکرات میں حماس کی نمائندگی کر رہے ہیں، نے ایک ویڈیو بیان میں کہا: “ہم ایسے معاہدے قبول نہیں کریں گے جو صرف اسرائیلی حکومت کی سیاسی بقا کے لیے ہوں۔ یہ لوگ جنگ کو طول دے رہے ہیں، چاہے اس کی قیمت اپنے ہی شہریوں کی جانوں میں کیوں نہ دینی پڑے۔”

اس وقت بھی تقریباً 59 اسرائیلی یرغمالی حماس کی قید میں ہیں، جن میں سے 24 کے بارے میں سمجھا جا رہا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ اسرائیل نے جس پیشکش کی تھی، اُس میں 10 یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے 45 دن کی جنگ بندی شامل تھی—لیکن حماس کے لیے یہ کافی نہیں۔

دوسری طرف، اسرائیل کے انتہا پسند وزیرِ خزانہ بیزل سموٹریچ کا بیان دل دہلا دینے والا ہے: “وقت آ گیا ہے کہ حماس پر جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں۔” لیکن کیا واقعی یہ صرف حماس پر حملے ہیں؟ یا وہ بچے، وہ بوڑھے، وہ خواتین بھی اس جہنم کا ایندھن بن رہے ہیں جو اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو چکے ہیں؟

غزہ کے علاقے “المواسی” میں خیمہ بستیوں پر کیے گئے حملے میں کم از کم 37 افراد ہلاک ہوئے—اکثریت ان لوگوں کی تھی جو پہلے ہی اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے تھے۔ ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا: “جب میں باہر نکلا تو میرا ساتھ والا خیمہ شعلوں میں گھرا ہوا تھا۔ اندر بچے تھے۔ چیخیں تھیں۔ آگ تھی۔”

ادھر اسرائیلی فوج کہہ رہی ہے کہ وہ “دہشت گردوں کے 100 سے زائد ٹھکانوں کو نشانہ بنا چکی ہے” اور امداد کی کوئی کمی نہیں۔ مگر زمینی حقیقت کچھ اور ہے۔ 12 بڑے عالمی امدادی اداروں نے کھلے الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ “غزہ میں انسانی امداد کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔”

جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو ہوا تھا، جب حماس نے اسرائیلی علاقوں پر اچانک حملہ کیا۔ اس میں تقریباً 1200 افراد مارے گئے اور 251 یرغمال بنائے گئے۔ اس کے بعد جو آگ بھڑکی، وہ آج تک نہیں بجھی۔ حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت کے مطابق، اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 51,000 سے زائد افراد جان سے جا چکے ہیں۔

یہ سب اعداد و شمار نہیں—یہ وہ چہرے ہیں جو اب نہیں رہے، وہ کہانیاں ہیں جو ادھوری رہ گئیں، وہ زندگی ہے جو بموں کے شور میں دفن ہو گئی۔ اور شاید سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اب بھی امن کی کوئی راہ، کوئی روشنی نظر نہیں آتی۔اسرائیلی فوج کے تازہ فضائی حملوں میں غزہ میں 21 فلسطینی جاں بحق ہو گئے۔ اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ جلد ہی غزہ میں فوجی کارروائیاں مزید تیز کر دی جائیں گی۔”

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں