آرڈر نمبر 7 ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں کو تاحیات سکیورٹی کی سہولت فراہم نہیں کرتا: سپریم کورٹ کا وضاحتی بیان

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اہم وضاحتی بیان جاری کیا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ آرڈر نمبر 7 کے تحت ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں کو تاحیات سکیورٹی کی سہولت فراہم کرنا قانونی طور پر ممکن نہیں ہے۔ یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب کچھ میڈیا رپورٹس اور عوامی حلقوں میں یہ تاثر پھیل گیا تھا کہ سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں کو سرکاری سکیورٹی کی سہولت دے دی ہے۔

یہ معاملہ خاصی توجہ کا مرکز بنا کیونکہ ریٹائرڈ ججز کی خدمات اور ان کے اہل خانہ کی فلاح و بہبود کو قومی سطح پر اہم سمجھا جاتا ہے۔ تاہم عدالت نے واضح کیا ہے کہ ریاستی وسائل کا استعمال صرف اور صرف قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جاتا ہے اور کسی بھی قسم کی سہولت فراہم کرنے میں شفافیت اور میرٹ کو مقدم رکھا جاتا ہے۔


آرڈر نمبر 7 کی اصل نوعیت اور اس کی حدود

آرڈر نمبر 7 سپریم کورٹ کی انتظامی پالیسی کا ایک حصہ ہے جو ریٹائرڈ ججز کو کچھ مخصوص مراعات فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس آرڈر کے تحت ریٹائرڈ ججز کو محدود مدت کے لیے سرکاری سکیورٹی، میڈیکل سہولیات، اور دیگر پروٹوکول فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ ان کی خدمات کا اعتراف کیا جا سکے اور ان کی ذاتی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس آرڈر میں ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں یا اہل خانہ کو تاحیات سکیورٹی دینے کی کوئی شق موجود نہیں۔

یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ عدالت کی جانب سے فراہم کی جانے والی سکیورٹی ایک وقتی اور مخصوص نوعیت کی ہوتی ہے، جو اس وقت تک برقرار رکھی جاتی ہے جب تک جج خود اس سہولت کا مستحق ہوتا ہے یا جب تک کوئی خاص خطرہ موجود ہو۔ اس کے بعد، سکیورٹی کے حوالے سے کوئی مستقل سہولت فراہم کرنا قانون کے دائرے میں نہیں آتا۔


وضاحتی بیان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

حال ہی میں ایک ریٹائرڈ جج کی بیوہ کی جانب سے تاحیات سکیورٹی کے مطالبے نے اس مسئلے کو ایک نیا رخ دیا۔ اس مطالبے کو کئی میڈیا چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے بڑے پیمانے پر اجاگر کیا، جس سے ایک غلط فہمی پیدا ہوئی کہ عدالت نے ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں کو بھی سکیورٹی کی سہولت فراہم کر دی ہے۔

سپریم کورٹ نے اس قسم کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے فوری وضاحت جاری کی اور کہا کہ کسی بھی سرکاری یا آئینی پالیسی کے تحت ریٹائرڈ جج کی وفات کے بعد ان کی بیوہ یا خاندان کے افراد کو خود بخود سکیورٹی کی سہولت نہیں دی جاتی۔ سکیورٹی کی فراہمی کا فیصلہ ہمیشہ مخصوص حالات اور خطرات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، نہ کہ کسی کی سابقہ حیثیت یا تعلق کی بنیاد پر۔


سکیورٹی کی فراہمی کا قانونی معیار اور موجودہ عمل

سپریم کورٹ کے مطابق، اگر کسی فرد کو حقیقی اور واضح خطرات لاحق ہوں تو وہ متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کر کے حفاظتی اقدامات کی درخواست کر سکتا ہے۔ ان اداروں کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ حالات کا جائزہ لے کر مناسب سکیورٹی فراہم کریں یا نہ کریں۔ یہ فیصلہ صرف اور صرف خطرے کی نوعیت، اس کی شدت، اور دیگر قانونی پہلوؤں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

یعنی سکیورٹی کے معاملے میں قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ چاہے وہ ریٹائرڈ جج ہوں، سیاستدان، یا عام شہری، ہر کسی کو حفاظتی سہولت انفرادی خطرے کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا کہ آپ کسی عہدے پر فائز رہ چکے ہیں یا نہیں۔


ماہرین قانون اور عوامی ردعمل

قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ کی اس وضاحت کا مقصد قانونی شفافیت کو برقرار رکھنا اور عوام کے ذہنوں میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو ختم کرنا ہے۔ عدالت کی طرف سے یہ واضح کرنا بھی ضروری تھا کہ سرکاری وسائل کا استعمال شفافیت اور میرٹ کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ ناانصافی اور وسائل کے ناجائز استعمال کو روکا جا سکے۔

عوامی حلقوں میں بھی اس وضاحت کو سراہا جا رہا ہے کیونکہ سکیورٹی کی سہولت ایک قیمتی اور حساس مسئلہ ہے، جسے صرف ان افراد کو فراہم کیا جانا چاہیے جنہیں حقیقی خطرات کا سامنا ہو۔


سپریم کورٹ کا حتمی پیغام اور قانونی مساوات

سپریم کورٹ نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ سہولیات اور مراعات کا تعین صرف اور صرف قانون کے مطابق کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی رعایت یا استثنیٰ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب قانون اس کی اجازت دے یا کسی مخصوص قانونی حکم کی بنیاد ہو۔

یہ موقف ایک مضبوط پیغام ہے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور مساوات کے اصولوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ چاہے آپ جج ہوں یا کوئی عام شہری، قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور تمام معاملات میں میرٹ کو فوقیت دی جاتی ہے۔


ریٹائرڈ ججز کی خدمات اور ان کی قربانیوں کا اعتراف پاکستان کے عدالتی نظام کا ایک اہم جزو ہے، اور ان کے لیے مناسب سہولیات کا فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ تاہم، یہ سہولیات قانون کے دائرے میں اور اصولوں کی روشنی میں دی جانی چاہئیں۔

سپریم کورٹ کا یہ وضاحتی بیان نہ صرف قانونی حدود کو واضح کرتا ہے بلکہ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ مستقبل میں بھی سرکاری وسائل کا استعمال شفاف اور منصفانہ انداز میں کیا جائے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں