“اسرائیلی فوج کا غزہ شہر کے تمام شہریوں کو فوری انخلا کا حکم — مکمل فوجی کارروائی کی تیاری!”

اسرائیل کی دہشت گردی اور غزہ کا المیہ: ایک عالمی انصاف کا المیہ
9 ستمبر 2025 کو اسرائیلی فوج نے ایک تاریخی اور سنگین اعلان کیا ہے جس کے تحت غزہ شہر کے تقریباً 1.1 ملین رہائشیوں کو فوری طور پر شہر خالی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حکم کا مقصد ایک وسیع پیمانے پر زمینی فوجی کارروائی کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے، جو کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کا ایک نیا اور انتہائی خطرناک مرحلہ ہے۔
🔹 انخلا کا حکم اور اس کی وجوہات
اسرائیلی فوج نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ غزہ شہر ایک “شدید جنگی زون” میں تبدیل ہو چکا ہے، جہاں شہریوں کا رہنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس لیے یہ تمام رہائشی فوری طور پر جنوب کی جانب، خاص طور پر الماواسی اور خان یونس کے علاقوں کی جانب منتقل ہوں، جہاں انہیں “انسانی ہمدردی کے تحت محفوظ زون” قرار دیا گیا ہے۔ فوج کا کہنا ہے کہ یہ اقدام شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے، تاکہ زمینی آپریشن کے دوران جانی نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔
🔹 غزہ کی موجودہ صورتحال
غزہ کی پٹی پہلے ہی شدید انسانی بحران کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ یہاں خوراک، پانی، بجلی، اور طبی سہولیات کی شدید قلت ہے۔ تقریباً 2.3 ملین افراد پر مشتمل آبادی میں سے لاکھوں لوگ پہلے ہی اپنی گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں، اور اب انخلا کے اس حکم نے صورتحال کو مزید پیچیدہ اور پریشان کن بنا دیا ہے۔
🔹 انسانی جانوں کا نقصان اور امدادی بحران
غزہ میں جاری لڑائی میں اب تک تقریباً 60,000 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور اسپتال شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، امدادی سامان کی فراہمی محدود اور مشکل ہو گئی ہے، اور لوگ بھوک، پیاس اور بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
🔹 عالمی ردعمل اور سیاسی اثرات
اس انخلا کے حکم پر عالمی برادری نے مختلف ردعمل دیا ہے:
-
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ شہریوں کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے اور جنگ بندی کے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
-
قطر، ترکی، اور مصر نے کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ثالثی کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
-
یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک نے اسرائیل کو زور دیا ہے کہ انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے اور اس تنازعہ کو جلد از جلد سیاسی حل کی طرف لے جایا جائے۔
-
دوسری جانب، کچھ ممالک نے اسرائیل کے حقِ خود دفاع کو تسلیم کیا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانی جانوں کے تحفظ پر بھی زور دے رہے ہیں۔
🔹 اسرائیلی فوج کا مؤقف اور حکمت عملی
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد صرف حماس کی فوجی قوت کو ختم کرنا ہے، جو کہ مسلسل اسرائیل پر حملے کر رہی ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زمینی کارروائی کے بغیر حماس کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا ممکن نہیں۔ اسی لیے انہوں نے شہریوں کو محفوظ علاقے منتقل کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ جنگی کارروائیوں کے دوران جانی نقصان کو کم کیا جا سکے۔
🔹 غزہ کے شہریوں کی مشکلات اور ردعمل
غزہ کے شہری اس وقت ایک نہایت مشکل صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ بار بار کے حملوں اور مسلسل بے دخلی کی وجہ سے ان کے پاس نہ تو مناسب پناہ ہے اور نہ ہی روزمرہ کی ضروریات۔ انخلا کا یہ حکم ان کے لیے ایک اور خوفناک مرحلہ ہے کیونکہ:
-
بہت سے لوگ جسمانی یا مالی طور پر اپنے گھر چھوڑنے سے قاصر ہیں۔
-
بچوں اور بزرگوں کے لیے نقل و حمل اور حفاظتی انتظامات مشکل ہیں۔
-
انخلا کے دوران مزید انسانی جانوں کے ضیاع کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
🔹 آگے کا منظرنامہ اور توقعات
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر زمینی آپریشن شروع ہوتا ہے تو اس سے نہ صرف جنگ میں شدت آئے گی بلکہ انسانی المیہ اور بڑا ہوگا۔ بین الاقوامی برادری اس بات پر زور دے رہی ہے کہ جنگ بندی اور امن مذاکرات کو ترجیح دی جائے، مگر اب تک اس حوالے سے کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوئی۔
اسرائیلی فوج کا غزہ شہر کے تمام شہریوں کو فوری انخلا کا حکم جنگ کے ایک نئے اور خطرناک مرحلے کا اعلان ہے۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں بے گھر ہو سکتے ہیں، انسانی بحران سنگین ہو جائے گا، اور خطے کی سیاسی صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ اس وقت عالمی برادری کی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ کس طرح شہریوں کی حفاظت کی جائے اور کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔