اڈیالہ جیل سے چونکا دینے والے انکشافات – یا ایک اور گھٹیا پروپیگنڈہ؟

“اڈیالہ جیل سے چونکا دینے والے انکشافات” —

یا ایک اور جھوٹا بیانیہ؟ ایک اور گھسا پٹا اسکرپٹ؟

جب سچائی کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہو،
جب عوام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا ظرف نہ ہو،
اور جب ایک شخص جیل میں بیٹھ کر بھی لاکھوں دلوں پر راج کر رہا ہو —
تو پھر ایسی “خبریں” ہی سہارا بنتی ہیں۔

کل جو “بڑی خبر” بنا کر پیش کی گئی، وہ دراصل ایک انتہائی ناکام اور بوکھلاہٹ سے بھری کوشش تھی، جس کا واحد مقصد عمران خان کو بدنام کرنا، عوام کو گمراہ کرنا، اور ایک خوددار، غیرتمند لیڈر کی جدوجہد کو داغدار بنانا تھا۔


 حقیقت کیا ہے؟

کیا واقعی عمران خان جیسے شخص کا رویہ جیل میں چیخنے، دروازے پیٹنے، اور “خوف” میں مبتلا ہونے والا ہو سکتا ہے؟

یہ وہی عمران خان ہے جو:

  • ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد بھی کھڑا رہا، جھکا نہیں۔

  • جیل جانے کے بعد بھی ایک دن کے لیے نظریے سے پیچھے نہیں ہٹا۔

  • اپنے تمام قریبی ساتھیوں کی گرفتاری، تشدد، اور دباؤ کے باوجود قوم کا پرچم بلند رکھے ہوئے ہے۔

ایسا شخص “جبران الیاس” یا “ایکس اکاؤنٹ” کے سوال پر گھبرا جائے؟
یہ جھوٹ سراسر عوام کی عقل کی توہین ہے۔


 “را، موساد، سی آئی اے” — الزام یا خود اعترافِ جرم؟

جب ریاستی بیانیہ عمران خان جیسے قوم پرست کو بیرونی ایجنسیوں کا ایجنٹ قرار دینے لگے، تو سمجھ جائیں کہ سچ بہت آگے نکل چکا ہے اور جھوٹ، اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔

اگر آج کوئی شخص پاکستان میں ان ایجنسیوں کی بات کرتا ہے، تو وہی لوگ ہیں جو:

  • امریکی سازش پر چپ سادھ گئے،

  • قومی سلامتی کمیٹی کی رپورٹ کو دبایا،

  • اور اقتدار بچانے کے لیے ہر حد پار کی۔

عمران خان وہ شخص ہے جس نے “Absolutely Not” کہا، جب امریکہ نے فوجی اڈوں کی بات کی۔
اسے بیرونی ایجنسیوں سے جوڑنے والے دراصل اپنے ضمیر فروش ماضی کا پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔


 “X اکاؤنٹ کون چلا رہا ہے؟”

پہلے سازش، پھر سائفر، اب سوشل میڈیا اکاؤنٹس۔
عمران خان کی جدوجہد کو کبھی “فارن فنڈنگ” کہا گیا، کبھی “توشہ خانہ”، کبھی “آڈیو لیکس”، اور اب سوشل میڈیا کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے چاہنے والے دلوں سے جڑے ہوئے ہیں، نہ کہ کسی مخصوص اکاؤنٹ سے۔
اس کا ہر لفظ، ہر بیان، قوم سنتی ہے، سمجھتی ہے، اور دل پر لیتے ہیں — چاہے وہ جیل میں ہو یا زمان پارک میں۔

جبران الیاس ہو یا کوئی اور — وہ صرف پیغام رساں ہیں۔
اصل پیغام عمران خان کا نظریہ ہے، جو لاکھوں نوجوانوں کے دلوں میں اُتر چکا ہے۔


 کیوں یہ سب ہو رہا ہے؟

کیونکہ عمران خان:

  • کرپٹ اشرافیہ کو بےنقاب کرتا ہے

  • عوام کو سیاسی شعور دیتا ہے

  • اداروں کو آئینی دائرے میں لانے کی بات کرتا ہے

  • اور سب سے بڑھ کر، پاکستان کو خوددار ریاست بنانے کا خواب دیکھتا ہے

یہ خواب کرپٹ نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

اس لیے:

  • جھوٹے کیسز

  • جعلی خبروں کی بھرمار

  • میڈیا ٹرائل

  • سوشل میڈیا بندش

  • اور کردار کشی کی مہم — سب کچھ آزمایا جا رہا ہے

لیکن ایک سوال باقی ہے:

کیا کوئی جھوٹ، سچ کو شکست دے سکتا ہے؟


 قوم سے اپیل

اے باشعور پاکستانیوں!
کیا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے سچ کو ان جعلی کہانیوں کے بدلے بھول جائیں؟
کیا ایک لیڈر جو صرف اس قوم کی آزادی اور خودداری کے لیے لڑ رہا ہے، اسے تنہا چھوڑ دیں گے؟
کیا ہم ان پروپیگنڈوں کا شکار ہو جائیں گے، جو صرف چند دن کی شہ سرخیوں کے لیے گھڑے جاتے ہیں؟

یاد رکھو:

جب سچ دبایا جاتا ہے، تو وہ مزید زور سے ابھرتا ہے۔
اور عمران خان کا سچ اب صرف ایک فرد کا نہیں، پوری قوم کا بیانیہ بن چکا ہے۔


 تاریخ کا سبق

تاریخ گواہ ہے:

  • نیلسن منڈیلا 27 سال قید میں رہا، مگر نظریہ زندہ رہا۔

  • قائداعظم کو انگریزوں نے بارہا کمزور کرنے کی کوشش کی، مگر وہ ڈٹے رہے۔

  • علامہ اقبال کے خواب کو بھی “غیر حقیقت پسندانہ” کہا گیا، مگر وہی خواب آج ہمارا وطن ہے۔

آج عمران خان کو جس طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہ دراصل ایک نئے پاکستان کے نظریے پر حملہ ہے۔


 دعا

یا اللّٰہ! ہمارے قائد، عمران خان کی حفاظت فرما۔
انہیں ہر ظالم کے شر سے محفوظ رکھ۔
ان کے حوصلے، صبر، اور نظریے کو مزید طاقت عطا فرما۔
اس ملک کو غلامی سے نکالنے کے مشن میں انہیں کامیاب فرما۔

آمین، یا رب العالمین


 آخر میں ایک پیغام ان ظالموں کے لیے:

“قید تم نے جسم کو کیا ہے، نظریہ قید نہیں ہوتا۔”
“تم میڈیا بند کر سکتے ہو، مگر عوام کی آواز نہیں روک سکتے۔”
“اور سب سے بڑھ کر، تم سازش کر سکتے ہو، مگر اللّٰہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔


 عمران خان زندہ ہے — کیونکہ سچ زندہ ہے

اور سچ کبھی مرتا نہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں