بلوچستان اسمبلی میں “موئے موئے”: ارکان کو انگریزی بل دکھا کر تنخواہ بڑھانے کا جھانسہ!

بلوچستان اسمبلی میں حال ہی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس پر سنجیدہ بھی ہوا جا سکتا ہے اور قہقہہ بھی لگایا جا سکتا ہے — یا شاید دونوں بیک وقت۔
ہوا کچھ یوں کہ ارکان اسمبلی کو ایک انگریزی میں تحریر شدہ “بل” پیش کیا گیا، اور بتایا گیا کہ “حضور، یہ تو آپ کی تنخواہوں میں اضافے کا بل ہے، بس ایک ہاں کی مار ہے!”
اب ارکانِ اسمبلی خوشی خوشی بولے “ہاں!”، اور بل پاس ہو گیا۔
لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔
بعد میں پتہ چلا کہ یہ کوئی تنخواہوں والا بل نہیں تھا، بلکہ بلوچستان کی قیمتی معدنیات سے متعلق قانون سازی تھی۔ یعنی، انگریزی میں لکھے گئے بل کو سمجھنے کا وقت تو دیا نہیں گیا، اور گزر وہ کچھ اور گیا — اور ارکان سمجھے کچھ اور۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہمارے منتخب نمائندے صرف اتنا ہی جاننا چاہتے ہیں کہ “ہماری تنخواہ بڑھے یا نہیں؟” اور اگر بل انگریزی میں ہے تو کیا اسے سمجھنے کی ذمہ داری ان پر نہیں؟ یا ہم اب بھی اس جملے پر قائم ہیں کہ “اردو میں ہوتا تو ہم سمجھ لیتے”؟
یہ واقعہ ایک جانب جمہوری عمل میں شفافیت کی کمی کو ظاہر کرتا ہے، تو دوسری طرف یہ بھی بتاتا ہے کہ بعض اوقات قانون سازی صرف ایک رسمی کارروائی بن جاتی ہے، جہاں ارکان کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس چیز پر ووٹ دے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر لوگوں نے اس واقعے پر خاصی دلچسپ تبصرے کیے۔ کسی نے کہا، “یہ تو وہی بات ہوئی جیسے بچوں کو چاکلیٹ کا کہہ کر کڑوی دوا پلا دی جائے”، تو کسی نے طنز کیا، “ارکان اسمبلی کو انگریزی بل دینا ایسا ہی ہے جیسے گائے کے آگے بین بجانا”۔
مگر اصل سوال تو یہ ہے کہ کیا قانون سازی کا یہ انداز واقعی قابل قبول ہے؟
اگر ارکان اسمبلی خود بل نہ سمجھیں، اور نہ پڑھیں، تو عوام کیسے امید رکھے کہ ان کے حقوق کی حفاظت ہو رہی ہے؟
اب شاید اسمبلی کے ارکان کو چاہیے کہ اگلی بار کوئی بل آئے تو یہ نہ پوچھیں کہ “اس میں تنخواہ کتنی بڑھے گی؟”، بلکہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ “ہم کیا قانون بنانے جا رہے ہیں؟