بلوچستان میں پوست کی کاشت: حقیقت کو چھپانے کی ناکام کوششیں اور انتظامیہ کی بے بسی

حالیہ دنوں میں بلوچستان میں پوست کی کاشت سے متعلق خبریں سامنے آئی ہیں جن میں برطانوی اخبار دا ڈیلی ٹیلی گراف نے پاکستان کو پوست کی کاشت کے حوالے سے افغانستان پر سبقت لینے والا ملک قرار دیا تھا۔ اس خبر کی بلوچستان کے ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ کی جانب سے سخت تردید کی گئی، جس نے کہا کہ پوست کی کاشت کا رقبہ اتنا وسیع نہیں جتنا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ تاہم، اس تردید کو نہ صرف حقائق کی روشنی میں مسترد کیا جا سکتا ہے بلکہ اسے حقیقت چھپانے کی کوشش بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
پوست کی کاشت کا بڑھتا ہوا رقبہ اور حقائق کی تلخ حقیقت
حکومتی رپورٹس، علاقائی ذرائع اور ماہرین کے مطابق بلوچستان میں پوست کی کاشت کے لیے ہزاروں ایکڑ زمین استعمال ہو رہی ہے، جس کا اندازہ 33606 ایکڑ کے قریب ہے۔ یہ ایک بہت بڑا رقبہ ہے جو نہ صرف ماحولیات کو متاثر کر رہا ہے بلکہ علاقائی امن و امان پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے اس حقیقت کی تردید، ایک طرح سے مسئلے کی سنگینی کو کم کرنے اور عوام کی نگاہوں سے حقیقت چھپانے کی کوشش ہے۔
مقامی باشندوں، سول سوسائٹی اور میڈیا رپورٹس میں بھی واضح طور پر پوست کی کاشت اور اس سے جڑی سماجی و اقتصادی مشکلات کا ذکر ہوتا رہا ہے، جو انتظامیہ کی تردید سے مطابقت نہیں رکھتا۔
قانونی نظام اور پوست کی کاشت: مفادات کا گٹھ جوڑ
پاکستان میں پوست کی کاشت کے حوالے سے قوانین کی صورت حال انتہائی پیچیدہ ہے۔ مختلف ادوار میں ایسی پالیسیز اور قوانین بنائے گئے جو حقیقت میں پوست کی کاشت کو روکنے کی بجائے اسے قانونی آڑ فراہم کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ملک کے بعض سیاسی اور انتظامی حلقوں کے ذاتی اور گروہی مفادات ہیں، جو پوست کی کاشت سے جڑے مالی فوائد میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
بلوچستان کے علاقے، جہاں پوست کی کاشت عام ہے، وہاں کئی سرکاری و نیم سرکاری عناصر اور طاقتور لوگ اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ قانونی پیچیدگیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پوست کی کاشت کو پھیلانے میں مدد فراہم کرتے ہیں، جبکہ عام شہری اس نشہ آور منشیات کی وجہ سے تباہی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
بھارت اور امریکہ کی مثالیں: تنقید یا سیاسی بہانہ؟
کچھ حلقے پاکستان کے مسئلہ منشیات کے حل میں غیر سنجیدگی کا الزام بھارت اور امریکہ جیسے ممالک کی مثال دے کر لگاتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بھارت اور امریکہ اپنے اپنے خطوں میں منشیات کی روک تھام کے لیے مختلف پروگرام چلا رہے ہیں، جبکہ پاکستان میں قانونی نظام کی کمزوری اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیاں خود بنائے اور بیرونی عوامل کو بہانہ بنا کر اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی بجائے عملی اقدامات کرے۔ منشیات کی روک تھام کے لیے سخت قوانین اور ان کا موثر نفاذ ناگزیر ہے۔
سماجی اور انسانی بحران: بلوچستان کا خون کے آنسو
پوست کی کاشت کا سب سے بڑا نقصان بلوچستان کی عوام کو ہو رہا ہے۔ نوجوان نسل اس لعنت کی لپیٹ میں آ چکی ہے، جہاں نشہ کی وجہ سے تعلیمی شرح میں کمی، جرائم میں اضافہ اور صحت کے مسائل شدت اختیار کر رہے ہیں۔ منشیات کی لت سے متاثرہ خاندان سماجی اور اقتصادی بحران کا شکار ہو رہے ہیں، جس کا اثر پورے خطے کی ترقی اور امن پر پڑ رہا ہے۔
یہ وہی علاقے ہیں جہاں بنیادی سہولیات کی کمی ہے، اور انتظامیہ کی نااہلی اور غفلت نے صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ لوگ نہ صرف اپنی زندگیوں بلکہ اپنے مستقبل سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
انتظامیہ کی ذمہ داری اور شفافیت کا فقدان
بلوچستان کی انتظامیہ کی جانب سے پوست کی کاشت کی خبروں کی تردید نہ صرف مسئلے کو کم کرنے کی کوشش ہے بلکہ اس سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ وہ حقائق کو چھپانا چاہتی ہے۔ شفافیت کے بغیر کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ کھل کر حقائق سے آگاہ کرے، عوامی اعتماد بحال کرے، اور منشیات کے خلاف جامع حکمت عملی تیار کرے۔
بین الاقوامی برادری اور پاکستان کا کردار
پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے جو عالمی منشیات کے خلاف جنگ میں تعاون کر رہا ہے، لیکن اس کی سرزمین پر منشیات کی کاشت اور اسمگلنگ کو روکنا بھی قومی سلامتی کا حصہ ہے۔ عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کو اس مسئلے میں تنہا نہ چھوڑے بلکہ تکنیکی اور مالی معاونت فراہم کرے تاکہ اس لعنت سے نمٹا جا سکے۔
اصلاحات اور قومی عزم کی ضرورت
بلوچستان میں پوست کی کاشت کا مسئلہ ایک قومی بحران ہے جس کا حل فوری، سنجیدہ اور مربوط حکمت عملی میں مضمر ہے۔ حقائق کو چھپانا، تردید کرنا یا سیاسی مفادات کی خاطر مسئلے کو نظر انداز کرنا ملک اور عوام کے مفاد میں نہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد:
-
پوست کی کاشت روکنے کے لیے سخت قوانین بنائے اور نافذ کرے؛
-
مقامی کمیونٹی کو آگاہی اور صحت کی سہولیات فراہم کرے؛
-
متعلقہ اداروں کے درمیان ہم آہنگی بڑھائے؛
-
بین الاقوامی معاونت حاصل کرے؛
-
اور سب سے بڑھ کر، اس لعنت کے خلاف قومی یکجہتی اور عزم کو فروغ دے۔
صرف یہی طریقہ ہے کہ بلوچستان کے عوام کو اس نشہ آور بحران سے نجات دی جا سکے اور ملک کو ایک صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرے کی جانب لے جایا جا سکے۔