بلوچستان کے پیاز کے کاشت کاروں کی پریشانی: ایک تفصیلی جائزہ

بلوچستان کے پیاز کاشت کاروں کی مشکلات: امپورٹ، منڈی اور منافع کا تضاد

بلوچستان کے کئی کاشت کار مناسب منڈی قیمت نہ ملنے کی وجہ سے شدید پریشانی میں ہیں۔ ان کی محنت، وقت اور سرمایہ کاری اکثر بیچ بیچ میں “منڈی کے درمیانی افراد” اور درآمد شدہ پیاز کی کم قیمت کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے۔ ذیل میں تفصیل ہے کہ اس پورے مسئلے کی بنیاد کیا ہے، اثرات کیا ہیں، اور کیا کیا جائے۔


1. امپورٹڈ پیاز کا دخل

  • حکومت نے کبھی کبھی دام مفت امپورٹ کی اجازت دے دی ہے، تاکہ مقامی قیمتیں کم ہوں — مگر اس سے اصل کسان کو فائدہ کم پہنچتا ہے۔

  • مثال کے طور پر، بلوچستان اور سندھ میں شدید سیلاب یا خراب موسم کی وجہ سے پیداوار کم ہو جائے تو درآمد کا راستہ کھل جاتا ہے، لیکن آنے والے پیاز معیار یا ذائقے کے لحاظ سے کم ہو سکتے ہیں۔

  • چونکہ درآمد شدہ پیاز کی قیمت نسبتاً کم ہوتی ہے، وہ مارکیٹ میں دستیاب ہونے پر مقامی پیاز کی قیمت کو نیچے لاتے ہیں۔ کسان کی پیداوار کی لاگت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ درآمدی قیمت سے مقابلہ نہیں کر پاتے۔


2. پیداواری لاگت اور معاشی دباؤ

  • کسانوں کو بیج، کھاد، پانی، مزدوری، ٹرانسپورٹ وغیرہ پر کافی سرمایہ کاری کرنی پڑتی ہے، مگر منڈی قیمت ایسی ملتی ہے کہ یہ اخراجات پورے نہ ہوں۔

  • مثال کے طور پر، ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 120 کلوگرام پیاز جسے کسان Rs 1,500 یا Rs 1,700 میں بیچتے ہیں، وہ لاگت اور ٹرانسپورٹ کے حساب سے معمولی فائدہ یا نقصان پر ہوتا ہے۔


3. منڈی اور درمیانی افراد کا کردار

  • درمیانی افراد (middlemen یا commission agents) اکثر کاشت کار سے سستے دام خریدتے ہیں اور پھر منڈی میں مہنگے دام بیچتے ہیں، جس سے قیمت میں مارجن ان کے پاس رہ جاتا ہے۔

  • منڈی تک رسائی کا مسئلہ: بلوچستان کے کاشت کاروں کو نقل و حمل اور مارکیٹ تک پہنچنے میں مشکلات پیش آتی ہیں، جس کی وجہ سے اُنہیں قریبی منڈی نہ ملے تو قیمت ناقابل قبول ہوتی ہے۔


4. سرکاری پالیسیاں اور قیمت کنٹرول کا فقدان

  • درآمد پر ٹیکس، سبسڈی، کم سے کم حمایتی قیمت (MSP) جیسے اقدامات ضرور زیرِ غور آتے ہیں، مگر ان کا نفاذ مستقل یا مؤثر نہیں ہوتا۔

  • بعض اوقات تجارتی وزارت نے صادرات کے لیے کم از کم قیمت مقرر کی ہے، مگر وہ مارکیٹ میں کسانوں کے حق میں مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔

 کسانوں کی معاشی اور جذباتی حالت

  • بہت سے کاشت کار قرض میں مبتلا ہیں، کیونکہ فصل کی آمد کے بعد قیمت نہ ملنے کی وجہ سے وہ قرض واپس ادا نہیں کر پاتے۔

  • کھیتی چھوڑ دینے کا خطرہ بڑھ رہا ہے، خاص طور پر وہ جو چھوٹے درجے پر کام کرتے ہیں، کیونکہ ان کے رہائشی اور زرعی وسائل کم ہیں۔

 ممکنہ حل اور سفارشات

  • منڈی رابطے بہتر بنائے جائیں — روڈ نیٹ ورک، ٹرانسپورٹ سبسڈی، اسٹوریج اور پیکجنگ سہولتیں.

  • قیمت حمایتی مکینزم (MSP) لاگو ہو، تاکہ کسان کم از کم لاگت پورا کریں۔

  • درآمدی قواعد سخت ہوںامپورٹڈ پیاز کے معیار اور معیاری قیمت کے لحاظ سے ٹیکس یا کوٹہ متعین کیا جائے۔

  • کاشت کاروں کی تنظیمیں مضبوط ہوں تاکہ بیچنے کی قوت دستیاب ہو اور مشترکہ منڈی تک رسائی ممکن ہو۔

  • پیکنگ، گریڈنگ اور برانڈنگ کو بہتر کیا جائے تاکہ مقامی پیداوار معیاری نظر آئے اور صارف قیمت ادا کرنے پر مائل ہو۔

بلوچستان کے کسان کی جدوجہد صرف زرعی معاملہ نہیں، بلکہ انصاف، بقا، اور اقتصادی وقار کا معاملہ ہے۔ بیرونی درآمدات اور مارکیٹ کے درمیانی افراد ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں جہاں کسان کی محنت کم قیمت میں ضائع ہو جائے۔

اگر حکومت اور ریاستی ادارے بروقت اور ٹھوس اقدامات نہ کریں تو یتیمی فصلیں چھوڑ کر کسان زندگی کی تنگی میں گھر جائیں گے، اور زرعی شعبہ نقصان میں چلا جائے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں