بھارت کی تنہائی کی کوششیں اور ۲۰۲۵ کی سفارتی شکست

بھارت کی تنہائی کی حکمتِ عملی اور پاکستان‑سعودی تعلقات کی کامیابی


. بھارت کی تنہائی کی کوشش: ماضی کا پسِ منظر

  • بیانیاتی دباؤ اور سفارتی اطلاعات: بھارت نے ماضی میں پاکستان کو دہشت گردی، کشمیری تنازعہ، اور سرحدی جھڑپوں کے حوالے سے عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ذریعے وہ یہ دکھانا چاہتا تھا کہ پاکستان کسی کے ساتھ قابل اعتماد اتحاد کرنے کے قابل نہیں۔

  • معاشی و تجارتی تعلقات کا محدود دائرہ: بہت سے مسلم اور عرب ممالک نے بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ میں کھل کر شرکت نہ کی، جس کی وجہ سفارتی حساسیت، تاریخی منافرت وغیرہ تھیں۔

  • عسکری اور پالیسی اقدامات: بھارت نے عسکری اور داخلی پالیسیاں، وزارت خارجہ کے بیانات، اور میڈیا میں پاکستان کے خلاف موقف کو اجاگر کیا، تاکہ بین الاقوامی حمایت پاکستان کے خلاف مستحکم ہو جائے۔


۲. ۲۰۲۵ کا موڑ: پاکستان کی سفارتی بحالی

🔹 سعودی عرب کے ساتھ حفاظتی معاہدہ (Strategic Mutual Defence Agreement)

  • پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ کیا ہے جس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہو، تو وہ حملہ دونوں ممالک پر سمجھا جائے گا۔

  • اس معاہدے نے پاکستان کو محض مالی یا اقتصادی تعلقات سے آگے لے کر جانے کا عزم ظاہر کیا ہے، یعنی دفاعی تعاون اور سلامتی کے شعبے میں بھی گہرا اتحاد۔

🔹 پاکستان کا نیوکلئیر امبیئنٹ (nuclear umbrella)

  • پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ دفاعی معاہدے کے تحت اس کا جوہری پروگرام سعودی عرب کی سلامتی کے لیے ضروری ہو تو استعمال ہونے کی صورت میں دستیاب ہو سکتا ہے۔ یہ بیان واضح طور پر پاکستان کے دفاعی پوزیشن اور اس کے سلامتی کے موقف کو مستحکم کرتا ہے۔ 🔹 تبدیلی عالمی اور علاقائی توازن میں

  • معاہدہ اسرائیل‑حماس جنگ، قطر پر حملے، خلیجی ممالک کی بڑھتی ہوئی تشویش اور امریکہ کی سلامتی ضمانتوں کی کم ہوتی مداخلت کے تناظر میں آیا ہے۔

  • اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عرب دنیا، خاص طور پر خلیج تعاون کونسل (GCC) کے ممالک، خود کو سلامتی کے حوالے سے متنوع اتحاد تلاش کر رہی ہیں، نہ کہ صرف امریکہ پر انحصار۔


. بھارت کا ردعمل اور تشویشیں

  • بھارت نے سعودی‑پاکستان دفاعی معاہدے کے بعد ردعمل دیا ہے کہ وہ صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے، اور توقع کرتا ہے کہ اس معاہدے سے پیدا ہونے والی حساسیتوں اور مفادات کو مدنظر رکھا جائے گا۔

  • بھارتی میڈیا، تجزیہ کاروں اور حزب اختلاف نے یہ معاہدہ بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے، یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سعودی عرب کی اس پوزیشن سے پاکستان کو عسکری مجموعی دفاعی طاقت ملے گی، جو بھارت کیلئے نیا چیلنج ہے۔


. پاکستان کے لیے فوائد اور امکانات

  • سفارتی وقار میں اضافہ: یہ معاہدہ پاکستان کو نہ صرف خلیج ممالک بلکہ عالمی سطح پر ایک مستحکم دفاعی پارٹنر کے طور پر پیش کرتا ہے۔

  • سلامتی کا تحفظ: دفاعی اتحاد، ممکنہ جوہری ردِعمل کی ضمانت اور دفاعی تعاون، پاکستان کو بھارت یا دیگر ممکنہ خطرات کے خلاف دفاعی استحکام فراہم کرتا ہے۔

  • معاشی مدد اور سرمایہ کاری: سعودی عرب کی جانب سے مالی امداد، تیل اور اقتصادی تعاون کے امکانات بڑھیں گے، خصوصاً ایسی صورت میں جب معیشت دباؤ میں ہو۔ معاہدے نے اس تناظر میں پاکستان کی ضرورت اور سعودی عرب کی شراکت داری کو واضح کیا ہے۔


 خطرات اور چیلنجز

  • یہ معاہدہ فوجی و دفاعی ذمہ داریاں بھی لائے گا؛ کسی تنازعہ کی صورت میں پاکستان کو سخت فیصلے کرنے ہوں گے کہ وہ کس حد تک ردعمل دے۔

  • علاقائی سطح پر ایران یا دیگر ممالک سے تعلقات متاثر ہوں گے؛ پاکستان کو یہ یقینی بنانا ہو گا کہ یہ اتحاد علاقائی سلامتی مفادات کے تناظر میں دوسرے ممالک کے ساتھ تناؤ نہ پیدا کرے۔

  • سعودی عرب کے مفادات، ترجیحات اور عالمی معاہدے بدل سکتے ہیں؛ اگر وقت بدل جائے یا اندرونی دباؤ بڑھے، تو مستقل دفاعی اتحاد کا نفاذ چیلنج ہو سکتا ہے۔


 بھارت کی تنہائی کی حکمتِ عملی ناکام کیوں ہوئی؟

  1. کثیر جہتی سفارتکاری (Multilateral Diplomacy): پاکستان نے چین، سعودی عرب اور دیگر ممالک کے ساتھ مضبوط روابط بنائے، جس نے بھارت کی کوششوں کو بیچ راستہ کاٹو دیا۔

  2. دفاعی معاہدوں کی رسمی حیثیت: ناصرف بیانات بلکہ دفاعی مفاہمتیں، جو پہلے خفیہ یا نامکمل تھیں، اب واضح اور باضابطہ ہو گئی ہیں۔

  3. نیوکلیئر عنصر کا جائزہ: پاکستان کا جوہری امبیئنٹ سعودی عرب کے دفاعی مؤقف کا حصہ بننے سے بھارت کی سلامتی کیلکولس میں تبدیلی آئی ہے۔

  4. عالمی سطح پر سیاسی ردعمل: بھارت کو اعتبار کے ساتھ بتانا پڑا ہے کہ سعودی‑پاکستان تعلقات محض خطے کے مفادات یا دفاعی اتحاد نہیں، بلکہ نئے استحکام کی تلاش کا حصہ ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں