“جب الفاظ خاموش ہوں، تب معاہدے چیخ چیخ کر حقیقتیں بیان کرتے ہیں۔”

پاکستان سے دفاعی معاہدے پر بھارتی اداکار کمال راشد خان کا حیران کن تبصرہ
نیچے ایک بہت تفصیلی تجزیہ ہے معاہدے کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ — تاریخی تناظر، قانونی حیثیت، علاقائی اثرات، عالمی طاقتوں کا ردِعمل، اور ممکنہ چیلنجز۔ اگر چاہیں، تو اس کو مضمون یا رپورٹ کی صورت میں ترتیب دے سکتا ہوں۔

* پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کئی دہائیوں پر محیط ہیں، بنیادی بنیاد مذہبی، ثقافتی، اور مشترکہ مفادات کی ہے۔ پاکستان نے ماضی میں سعودی فوجی تربیت، مالی امداد، اور عسکری مشاورت فراہم کی ہے۔
* پچھلے سالوں میں خطے کی جغرافیائی صورتحال خاصی پیچیدہ ہوئی ہے — اسرائیل‑فلسطینی تنازعہ، ایران کی عسکری اور میزائلی صلاحیتیں، عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں میں بڑھتی ہوئی سلامتی کی عدم یقینی، اور امریکہ کی علاقائی اثر پذیری میں کمی کے شبہات۔
* پاکستان کی قربتیں اقتصادی بحران، اندرونی سلامتی کے چیلنجز، اور اسلامی دنیا میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خواہش کے پسِ منظر میں ہیں۔

* یہ معاہدہ “Strategic Mutual Defence Agreement (SMDA)” کہلاتا ہے، جس میں بنیادی شرط یہ ہے کہ **کوئی بھی حملہ ایک ملک پر دوسرے ملک پر حملہ سمجھا جائے گا**۔
* اس معاہدے میں دفاعی تعاون، مشترکہ قوتِ بازدار (joint deterrence)، عسکری تربیت، ممکنہ فوجی تعاون اور سلامتی شراکت داری شامل ہونے کا اعلان کیا گیا ہے
* اگرچہ معاہدے میں ***جوہری ہتھیاروں*** کا واضح ذکر نہیں ہے، لیکن پاکستان کے دفاعی وزیر نے کہا ہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام ضرورت پڑنے پر سعودی عرب کے دفاعی مفاد میں فعال ہو سکتا ہے۔ اس بات سے “جوہری چھتری (nuclear umbrella)” کی بحث نے جنم لیا ہے۔
* معاہدہ اب تک جزوی تفصیلات کے ساتھ ہے؛ جیسے کہ کون سی فورسز، کمانڈ ڈھانچہ، ردعمل کا طریقہ کار، ٹائم فریم، اور عملی مشقیں ابھی واضح نہیں ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اور خلیج کی ریاستیں

* خلیجی ممالک کو اب یہ اختیار مل رہا ہے کہ وہ سلامتی کے شعبے میں صرف امریکہ یا مغربی طاقتوں پر انحصار نہ کریں بلکہ علاقائی شراکت داری اور مسلم ممالک کے دفاعی تعاون سے اپنی حفاظت کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ (
* اس معاہدے کی وجہ سے ایران, اسرائیل, اور دیگر طاقتیں نئی صورتِ حال میں ردعمل دینے کی پوزیشن میں ہوں گی۔ خاص طور پر اسرائیل کے خلاف ردِعمل کا امکان بڑھ رہا ہے، جیسا کہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ ایک “جوہری چھتری” کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
#### ب) جنوبی ایشیا اور بھارت‑پاکستان تعلقات

* بھارت نے اس معاہدے پر محتاط ردِعمل دیا ہے، اور کہا ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات کی حفاظت کرے گا اور تعاون اور حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی عرب سے تعلقات کو دیکھے گا۔
* اس معاہدے سے پاکستان کی عسکری و سکیورٹی پوزیشن مضبوط ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر وہ دفاعی اتحاد کے تحت مشترکہ کارروائیوں اور فوجی مشقوں میں حصہ لے۔ مگر اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ بھارت کو اپنی سکیورٹی منصوبہ بندی اور رد عمل کے ذرائع پر غور کرنا پڑے گا۔
عالمی طاقتوں کی پالیسیاں

* امریکہ، یورپ، اور دیگر مغربی ممالک اس صورتحال کو اپنے مفادات اور علاقے میں اثر و رسوخ کے تناظر میں دیکھیں گے۔ اگر سعودی عرب کو امریکی انشورنس کم محسوس ہو رہی ہو، تو وہ خود مختاری تلاش کر رہا ہے، اور پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ اسی سمت میں ایک قدم ہے۔
* دیگر اہم ممالک جیسے چین، روس، ایران، ترکی وغیرہ اس معاہدے سے علاقائی طاقت بیلنس میں تبدیلیوں کا اندازہ لگائیں گے اور ممکن ہے کہ وہ اپنی پالیسیاں ایڈجسٹ کریں، دفاعی شراکت داری، ٹیکنالوجی منتقلی، اور عسکری تربیت کے شعبوں میں اضافہ کریں۔

* **حفاظتی استحکام (Security Stability):** سعودی عرب کیلئے دفاعی خدشات خصوصاً ایران، میزائل حملے یا عسکری مداخلت کی صورت میں ایک مضبوط دفاعی شراکت دار موجود ہوگا۔ پاکستان کو بھی عالمی سطح پر طاقت اور دفاعی حیثیت کا اعزاز ملے گا۔
* **اقتصادی فوائد:** سعودی جانب سے ممکنہ سرمایہ کاری، قرضوں اور بین الاقوامی مالی تعاون میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو مالی مشکلات کا سامنا ہے، اس لئے یہ معاہدہ بڑی اقتصادی امداد کا دروازہ کھول سکتا ہے
* **دفاعی اور فوجی تعاون:** مشترکہ فوجی مشقیں، تربیتی پروگرام، ہتھیاروں یا دفاعی ٹیکنالوجی کی شراکت، سکیورٹی ڈھانچے کی ہم آہنگی ممکن ہے۔ خطرات اور ممکنہ چیلنجز

* **جوہری خطرات:** اگر “جوہری چھتری” کا مفہوم عملی شکل اختیار کرے، تو علاقائی جوہری میزائلی مقابلے میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو عدم استحکام کا باعث بنے گا۔ مغربی ممالک، اسرائیل ایران اور بھارت سخت ردِعمل دے سکتے ہیں۔
* **معاشی بوجھ:** دفاعی تعاون کی عملی شراکت داری، فورس کی تیاری اور ممکنہ فوجی ردعمل کے لیے وسائل درکار ہوں گے۔ پاکستان کی معیشت پہلے ہی دباؤ میں ہے؛ اگر یہ معاہدہ تمام حربی امکانات پر لاگو ہوتا ہے تو بجٹ اور مالی استحکام پر اثر پڑے گا۔
* **سفارتی تناؤ:** بھارت، ایران، اسرائیل اور دیگر علاقائی طاقتیں اس معاہدے کو متحرک چیلنج سمجھیں گی، جسے ردعمل یا نیا اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کو توازن قائم کرنا ہوگا کہ وہ کسی سے دشمنی یا کشیدگی کو جنم نہ دیں۔
* **عملی نفاذ کی مشکلات:** معاہدے کی شفافیت کم ہے۔ کون سی صورتِ حال حملہ تصور کی جائے گی؟ ردِعمل کس طرح اور کس فورس سے ہوگا؟ کمانڈ‑کنٹرول کا نظام کیسا ہوگا؟ یہ تمام معاملات ابھی واضح نہیں ہیں۔

خلیجی عرب ممالک، دیگر مسلم ممالک یا عرب لیگ کے رفقا شامل ہو سکتے ہیں۔ معاہدہ بڑی اسلامی دفاعی تعاون کی بنیاد بن سکتا ہے۔ | خطے میں اتحاد کی نئی شکلیں، بڑی عسکری تعاون، مشترکہ دفاعی صنعتی منصوبے، ٹیکنالوجی کا اشتراک، تعاون برائے انٹیلیجنس وغیرہ۔
| **معاشی‑دفاعی صنعت میں اشتراک** | دونوں ممالک دفاعی صنعت، میزائلی نظام، فضائی دفاع وغیرہ میں شراکت داری بڑھائیں گے۔ تکنیکی صلاحیتوں میں اضافہ، عالمی سپلائی چین میں شرکت، برآمدات کا فروغ اور روزگار کے مواقع۔
| **خطے میں نئی سلامتی صف بندی** | ایران، اسرائیل، بھارت، ممکنہ طور پر ترکی اور ترکی میڈیا کو شامل کرتے ہوئے، نئے اتحاد اور دشمنیاں سامنے آ سکتی ہیں۔ | کشیدگی، عسکری مزاحمت، سفارتی موازنہ، سلامتی اور جوہری عدم پھیلاؤ کے امور میں عالمی تشویش۔
| **سلامتی تعاون کی عملی شکلیں** | فوجی مشقیں، فضائی نگرانی، مشترکہ آپریشنز، ساحلی اور بحری دفاع میں شراکت، ممکنہ “پراسکیل” فورسز کا قیام۔تربیت و ساز و سامان کی ضرورت، مشترکہ مراکز، کمانڈ سٹرکچر کا قیام، مشترکہ مالی اور لوجسٹک پلاننگ۔

یہ معاہدہ محض دو بھائی ممالک کے بیچ تحریری وعدہ نہیں؛ یہ ایک علامتی اور عملی تبدیلی ہے جو پورے خطے کی سیاست، سلامتی اور طاقت کے توازن کو متاثر کر سکتی ہے۔ معاہدے کا اصل مفہوم صرف سطری اظہار میں نہیں بلکہ امکانات میں، ردِعمل میں، اور مستقبل کی شراکت داریوں میں ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں