جب تعلیم کاروبار بن جائے، تو قوموں کا مستقبل نیلامی میں چلا جاتا ہے!

بلی آخرکار تھیلے سے باہر آ ہی گئی۔ وہ بات جو برسوں سے درپردہ چل رہی تھی، اب کھلے عام کی جا رہی ہے۔ میاں عامر محمود، جو “پنجاب کالجز” کے مالک ہیں اور تعلیم کو ایک تجارتی ادارہ سمجھتے ہیں، اب فرماتے ہیں کہ سرکاری کالجز ہمیں دے دیے جائیں، ہم لاہور میں بیٹھ کر پورے پنجاب کے ادارے سنبھال لیں گے۔

سبحان اللہ! ماشاءاللہ!
کیا خوب خواہش ہے! یعنی تعلیمی نظام کو بھی ایک فرینچائز بنا دیا جائے، جہاں لاہور ہیڈ آفس ہو اور باقی پنجاب محض برانچز۔ یہ کوئی تعلیم نہیں، بلکہ تعلیم کے نام پر قبضہ گروپنگ کی کوشش ہے۔

کہتے ہیں اندھے کے ہاتھ ایک بار بٹیر لگ جائے تو وہ ساری عمر ہاتھ مارتا رہتا ہے، شاید پھر نصیب ہو جائے۔ کچھ ایسا ہی حال ان “پرائیویٹ تعلیم فروشوں” کا ہے جنہیں ایک بار کامیابی ملی، اور اب وہ خود کو تعلیمی مسیحا سمجھ بیٹھے ہیں۔

ذرا کوئی ان سے پوچھے کہ وہ تعلیم کی کون سی مثال قائم کر چکے ہیں؟ جب لاہور کے ایک کیمپس میں محض ایک فیک خبر پر پنجاب کالج کے اپنے طلبہ نے اساتذہ پر حملے کیے، انفراسٹرکچر توڑا، بلڈنگز کو آگ لگا دی — تو کیا یہی آپ کا تعلیمی ماڈل ہے؟ کیا یہی سیکھایا جا رہا ہے آپ کے اداروں میں؟ تربیت کے اس پست معیار کے ساتھ آپ پورے پنجاب کی بھاگ ڈور سنبھالنا چاہتے ہیں؟

پنجاب کے بڑے شہروں کو چھوڑ کر، باقی تمام علاقوں میں اساتذہ جانتے ہیں کہ ایف ایس سی اور مقابلہ جاتی امتحانات میں سرکاری کالجز کے طلبہ کہاں کھڑے ہیں، اور پرائیویٹ اداروں کے نتائج کہاں۔
ہم نے شاید ہی کبھی سنا ہو کہ پنجاب کالج کے طلبہ نے ایم ڈی کیٹ، انجینئرنگ، یا CSS جیسے امتحانات میں کوئی نمایاں معرکہ مارا ہو۔ اوسط درجے کے نتائج، مگر فیسیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ والدین سے پیسے اس انداز میں بٹورے جاتے ہیں جیسے یہ کوئی “ایجوکیشن نہیں، انویسٹمنٹ اسکیم” ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر تعلیمی معیار کو مجموعی طور پر ماپا جائے، تو پرائیویٹ ادارے سرکاری اداروں کے پایہ تک نہیں پہنچتے۔ اور اگر سرکاری اداروں کو مکمل خودمختاری، وسائل، اور پالیسی سازی کا اختیار دے دیا جائے تو یہ پرائیویٹ ادارے ان کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ رہیں۔

مگر افسوس کہ سرکاری اداروں کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جاتے ہیں۔ نہ اساتذہ کو پالیسی بنانے دی جاتی ہے، نہ انہیں درکار سہولیات دی جاتی ہیں، اور نہ ہی ٹیچرز کی کمی پورا کرنے کا کوئی مؤثر نظام موجود ہے۔ ایک ایک تبادلے، ایک ایک منظوری کے لیے مہینوں نہیں، سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس سب کے باوجود، سرکاری ادارے آج بھی پورے سسٹم کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے کھڑے ہیں، اور پرائیویٹ ادارے ان کے سامنے آج بھی بونے ہیں۔

تو سوال یہ نہیں کہ کالجز کس کو دیے جائیں، سوال یہ ہے کہ کیا تعلیم کو سرمایہ داروں کی جاگیر بنایا جا سکتا ہے؟
کیا یہ وہی “علم” ہے جو معاشرے کو بیدار کرتا ہے، یا یہ وہ کاروبار ہے جو نسلوں کو گروی رکھ دیتا ہے؟

اگر یہ روش نہ رکی، تو وہ دن دور نہیں جب تعلیم ایک حق نہیں، صرف اشرافیہ کی میراث بن کر رہ جائے گی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں