جب تعلیم کا حق احتجاج بن جائے: پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ کی جدوجہد اور غیر انسانی رویہ

تعلیمی اداروں میں انصاف کی تلاش: طلبہ کے جائز مطالبات
پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے فیسوں میں کمی اور گرلز ہاسٹل میں فی میل سٹاف کی تعیناتی کے مطالبے کے لیے پرامن احتجاج کا آغاز کیا۔ ان کا مقصد تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانا اور ایک محفوظ تعلیمی ماحول فراہم کرنا تھا، جو ہر طالبعلم کا بنیادی حق ہے۔ فیسوں کی بلند شرح نے خاص طور پر متوسط طبقے کے طلبہ کی تعلیم تک رسائی مشکل بنا دی تھی، اور گرلز ہاسٹل میں فی میل سٹاف کی عدم موجودگی نے طالبات کی حفاظت اور ذہنی سکون کو شدید متاثر کیا۔
احتجاج کا پرامن مزاج اور طلبہ کا حق اظہار رائے
طلبہ و طالبات نے اپنی بات منوانے کے لیے پرامن طریقے اپنائے اور اپنی آواز بلند کی۔ یہ احتجاج بنیادی طور پر ایک جمہوری حق ہے جس کا تحفظ بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں میں شامل ہے۔ تعلیمی اداروں میں پرامن احتجاج کو سراہا جانا چاہیے نہ کہ اس پر تشدد کیا جانا چاہیے، کیونکہ یہ طلبہ کی بات سننے اور اصلاحات کے لیے ایک مثبت ذریعہ ہے۔
وائس چانسلر کا جارحانہ رویہ: پولیس اور مسلح گارڈز کا استعمال
بدقسمتی سے، یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اس پرامن احتجاج کو طاقت کے ذریعے دبانے کا فیصلہ کیا۔ پولیس اور مسلح گارڈز کو طلبہ پر تشدد کرنے اور گرفتاریاں کرنے کا حکم دیا گیا، جو ایک ناقابل قبول اور غیر انسانی اقدام تھا۔ اس سے نہ صرف طلبہ کی جسمانی اور نفسیاتی صحت متاثر ہوئی بلکہ یونیورسٹی کا تعلیمی ماحول بھی بدترین صورت حال سے دوچار ہوگیا۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور تعلیمی آزادی پر سوالیہ نشان
تشدد اور گرفتاریاں طلبہ کے بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ طلبہ کو اپنے جائز مطالبات کے لیے آواز اٹھانے کا حق حاصل ہے، اور ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک بین الاقوامی معیارات کے خلاف ہے۔ اس واقعے نے تعلیمی اداروں میں آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق کے تحفظ پر گہرے سوالات اٹھا دیے ہیں، جن کا فوری ازالہ ضروری ہے۔
کنوینئر پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی قیصر شریف کا موقف
کنوینئر پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی، قیصر شریف نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ طلبہ کے ساتھ یہ رویہ نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ یہ تعلیمی نظام کی بقاء کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وائس چانسلر کے اس اقدام کی انکوائری کی جائے، اور طلبہ کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ ساتھ ہی تعلیمی اداروں میں طلبہ کے حقوق کا احترام یقینی بنایا جائے۔
تعلیمی نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت
یہ واقعہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اصلاحات کی کتنی ضرورت ہے۔ فیسوں میں کمی اور تعلیمی سہولیات میں بہتری کے لیے پالیسی سازوں کو سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ ساتھ ہی، طلبہ کی آواز کو دبانے کے بجائے ان کے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے تاکہ تعلیمی ماحول محفوظ، خوشگوار اور ترقی پسند ہو۔
طلبہ کی آواز کا احترام: تعلیمی مستقبل کی ضمانت
تعلیمی ادارے صرف تعلیم کا مرکز نہیں بلکہ جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کے بھی گڑھ ہیں۔ طلبہ کی آواز کو سنا جانا اور ان کے جائز مطالبات کو پورا کرنا ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ حکومتی اور تعلیمی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ تشدد اور گرفتاریوں کے بجائے بات چیت اور سمجھوتے کے ذریعے مسائل کو حل کریں۔
آخر میں: پرامن احتجاج کا احترام اور تعلیمی حقوق کی بحالی
پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات کا احتجاج ایک آئینہ ہے جس میں ہمارے تعلیمی نظام کی خامیاں عیاں ہیں۔ اس احتجاج کو دبانے کی بجائے اس کے پیچھے چھپے مسائل کو سمجھنا اور ان کا حل تلاش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ پرامن احتجاج کا احترام کرنا جمہوریت کا تقاضا ہے اور تعلیم کے بنیادی حقوق کی بحالی ہر ادارے کا فرض ہے۔