“جب قراردادیں انسانوں کی جانوں سے کم اہم سمجھی جائیں، خاموشی ہی سب سے بڑا جرم بن جاتی ہے۔”


امریکہ کا ویٹو: غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کی مستردگی اور اس کے اثرات

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ کی فوری، غیر مشروط، اور مستقل جنگ بندی کی قرارداد پر امریکہ نے اپنی ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ عالمی سطح پر شدید توجہ کا مرکز بن گیا ہے کیونکہ یہ اس تنازعے میں امریکہ کا چھٹا ویٹو ہے، جو کہ عالمی برادری میں اس کی پوزیشن اور پالیسیوں پر سوالات کو جنم دیتا ہے۔

قرارداد کی تفصیلات اور حمایت

یہ قرارداد خاص طور پر اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امدادی رسائی پر عائد پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتی تھی، تاکہ انسانی امداد بلا روک ٹوک متاثرہ علاقوں تک پہنچ سکے۔ اس کے علاوہ، حماس کے زیر حراست افراد کی رہائی بھی قرارداد کا ایک اہم نکتہ تھا۔ قرارداد کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15 میں سے 14 ارکان نے زبردست حمایت دی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی برادری کے دیگر اہم ارکان اس تنازعے کے فوری حل کے خواہاں ہیں۔

امریکہ کی مخالفت اور مؤقف

امریکی حکومت نے اس قرارداد کو ویٹو کرنے کی دلیل پیش کی کہ حماس نے جنگ بندی کی شرائط کو مسترد کیا ہے، جس کی وجہ سے جنگ بندی کے امکانات کمزور ہوئے ہیں۔ امریکی سفیر نے واضح کیا کہ “اب وقت ہے کہ سفارتی کوششوں کو کامیاب ہونے دیا جائے” اور فوری جنگ بندی کے بجائے مذاکرات اور سیاسی حل کی راہ اپنائی جائے۔ امریکہ کا یہ مؤقف اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ تنازعے میں ایک خاص پوزیشن رکھتا ہے، جس میں اسرائیل کے تحفظات کو فوقیت دی جاتی ہے۔

غزہ میں انسانی بحران کی سنگینی

جنگ بندی نہ ہونے کی وجہ سے غزہ میں انسانی المیہ روز بروز گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ فلسطینی حکام کے مطابق، اسرائیلی فضائی حملوں نے 1,600 سے زائد عمارتوں کو تباہ کر دیا ہے، جن میں گھریلو مکانات، اسکول، اسپتال، اور دیگر بنیادی ڈھانچے شامل ہیں۔ مزید برآں، 13,000 سے زیادہ خیمے ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، جس سے ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان تباہ کاریوں کے دوران کم از کم 45 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور فوری انسانی امداد کی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔

عالمی ردعمل اور ممکنہ اقدامات

امریکہ کے ویٹو کے بعد، روس نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایمرجنسی اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی ہے۔ جنرل اسمبلی میں ویٹو کی طاقت نہیں ہوتی، اس لیے وہاں قراردادیں زیادہ سیاسی اور اخلاقی وزن رکھتی ہیں، حالانکہ وہ قانونی طور پر بائنڈنگ نہیں ہوتیں۔ یہ قدم عالمی برادری کے درمیان تقسیم اور تنازعے کے حل کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔

نتیجہ اور سوالات

امریکہ کی جانب سے ویٹو کا استعمال ایک سنگین سوال اٹھاتا ہے کہ کیا سیاسی مفادات انسانی جانوں اور امن سے کہیں زیادہ اہم ہو گئے ہیں؟ عالمی برادری اگر واقعی انصاف، امن، اور انسانیت کے حق میں ہے تو اسے نہ صرف باتوں بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے متاثرین کی حفاظت، فوری امدادی رسائی، اور اس طرح کے تنازعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ جنگ بندی کا فقدان نہ صرف انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ خطے میں پائیدار امن کے امکانات کو بھی کمزور کر رہا ہے۔


اگر آپ چاہیں تو میں اس میں مزید گہرائی، پس منظر، یا تجزیہ بھی شامل کر سکتا ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں