“جب ووٹ بے توقیر ہوا، تو حکومتیں ایکٹنگ کا اسٹیج بن گئیں!”

“جب ووٹ بے توقیر ہوا، تو حکومت ایکٹنگ کا اسٹیج بن گئی”
ایک تنقیدی جائزہ: حامد میر کے کالم “ٹک ٹاک حکومت” سے متاثرہ تفصیلی تبصرہ
🔹 تمہید:
جمہوریت کی اصل روح عوام کی رائے اور ان کے ووٹ کی طاقت میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ لیکن جب یہ بنیاد ہی ہلا دی جائے، جب عوام کے حقِ رائے دہی کی قدر کم کر دی جائے، اور جب “ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ فقط ایک سیاسی حربہ بن جائے—تو پھر جمہوریت کے خول میں آمریت، اور عوامی حکومت کے پردے میں صرف تماشا باقی رہ جاتا ہے۔
سینیئر صحافی حامد میر نے اپنے کالم “ٹک ٹاک حکومت” میں نہایت جرات مندی اور وضاحت سے اسی صورتِ حال کو بے نقاب کیا ہے۔
🔸 ماضی کا منظرنامہ: جب حکمران جوابدہ تھے
🔹 ووٹ کی طاقت، کارکردگی کی ضمانت تھی
پرانے وقتوں میں حکمران جانتے تھے کہ پانچ سال بعد انہیں دوبارہ عوام کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ یہی خوف، یہی احتساب کا احساس، انہیں مجبور کرتا تھا کہ وہ صرف تقریریں نہیں بلکہ حقیقی اقدامات کریں۔
تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر، روزگار—یہ وہ شعبے تھے جن میں بہتری لانا حکومت کی ترجیح ہوا کرتی تھی۔
🔹 میڈیا کے بجائے میدانِ عمل
اس وقت حکمرانوں کی کارکردگی کا اندازہ پریس کانفرنسز سے نہیں بلکہ زمینی حقائق سے لگایا جاتا تھا۔ نہ ہی سوشل میڈیا کا اتنا غلبہ تھا کہ بیانیہ حقیقت کو دبا سکے۔
فارم 47 اور جمہوریت کی بے بسی
انتخابی نتائج پر سوالات
2018 اور 2024 کے انتخابات میں فارم 45 اور فارم 47 کے ذریعے انتخابی نتائج میں جو شبہات اور تضادات سامنے آئے، انہوں نے پورے انتخابی نظام کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا۔
بہت سے حلقوں میں پولنگ ایجنٹس کو نکال دیا گیا، رزلٹس تاخیر سے آئے، اور بعض نتائج ایسے تھے جو خود الیکشن کمیشن کے بیانات سے بھی متصادم تھے۔
عوامی رائے کی پامالی
اس غیر شفاف عمل نے عوام کو یہ باور کروا دیا کہ ان کے ووٹ کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ جب اقتدار کا فیصلہ عوامی ووٹ سے نہ ہو، تو حکمرانوں کی “عوامی خدمت” بھی نمائشی بن جاتی ہے۔
ٹک ٹاک حکومت کا ظہور
ویڈیو کلپس کی دنیا
آج کی حکومت کی کارکردگی کا پیمانہ یہ بن چکا ہے کہ کون سا وزیر سب سے زیادہ views, likes, اور shares حاصل کرتا ہے۔
جہاں کبھی “پلاننگ کمیشن” اور “وزارتِ ترقی و منصوبہ بندی” کی رپورٹس پیش کی جاتی تھیں، وہاں اب وائرل ویڈیوز اور ٹرینڈز اہم بن چکے ہیں۔
کام کم، کیمرہ زیادہ
حکومت کے نمائندے میدانِ عمل سے زیادہ میڈیا کے سامنے نظر آتے ہیں۔
عوامی فلاح کا کام پسِ پشت چلا گیا ہے، اور فوٹو سیشن، ڈرامائی بیانات، اور جذباتی مکالمے حکمرانی کا معیار بن چکے ہیں۔
سوشل میڈیا اور بیانیے کی جنگ
حقیقی کارکردگی یا نیرٹیو؟
اب یہ لازم نہیں کہ آپ نے کیا کام کیا، بلکہ یہ اہم ہے کہ آپ نے کون سا “بیانیہ” بیچا، اور وہ کتنا “وائرل” ہوا۔
جو حکومت اپنی ناکامیوں کو بھی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کا فن جانتی ہو، وہ سوشل میڈیا پر کامیاب تصور کی جاتی ہے، چاہے زمین پر کچھ نہ ہو۔
تنقید = غداری؟
آج تنقید برداشت کرنے کا کلچر بھی ختم ہو چکا ہے۔
صحافی، تجزیہ کار، اور عام شہری اگر حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھائیں تو انہیں فوراً “غدار”، “منفی سوچ کا حامل”، یا “اداروں کا دشمن” قرار دے دیا جاتا ہے۔
یہ وہ رویہ ہے جو جمہوری روایات کی نفی کرتا ہے۔
عوامی مسائل کی حقیقی تصویر
مہنگائی، بے روزگاری، اور مایوسی
-
آٹا، چینی، گھی، پیٹرول، بجلی—ہر چیز کی قیمت آسمان پر ہے۔
-
نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے روزگار کی تلاش میں دربدر ہیں۔
-
طبی سہولیات کی حالت ناگفتہ بہ ہے، تعلیم کا معیار گر چکا ہے۔
حکومتی جواب؟
اس کے باوجود حکومت کی ترجیح یہ ہے کہ کون سا میم زیادہ مزاحیہ ہے، اور کون سا نعرہ زیادہ چمک دار۔
یہ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔
جمہوریت کا مستقبل: سوالیہ نشان
عوام کی بے نیازی
جب بار بار عوام کا ووٹ روند دیا جائے، اور ان کی آواز کو دبایا جائے، تو عوام میں سیاسی بے حسی جنم لیتی ہے۔
لوگ پولنگ اسٹیشنز سے دور ہو جاتے ہیں، اور “ہماری رائے سے کچھ نہیں بدلتا” جیسا رویہ عام ہو جاتا ہے۔
کیا حل ہے؟
جمہوریت کی بحالی صرف الیکشن کروانے سے نہیں ہو سکتی، بلکہ آزاد، شفاف، اور غیر جانبدارانہ نظامِ انتخاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
ووٹ کو حقیقی طاقت بنانا ہوگا، نہ کہ صرف ایک خانہ پُری۔
نتیجہ:
ٹک ٹاک حکومت کا بنیادی المیہ یہی ہے کہ وہ عوامی مسائل کو حقیقی انداز میں حل کرنے کی صلاحیت اور نیت، دونوں سے محروم ہے۔
جب اقتدار کا راستہ عوام کے ووٹ سے نہ ہو، تو حکمرانی ایک دکھاوا بن جاتی ہے—جس میں اصل ترقی نہیں، صرف رنگینی ہوتی ہے۔
مگر یاد رکھیں:
کیمروں سے حاصل کردہ اقتدار دیرپا نہیں ہوتا، وہ صرف اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک روشنی آن رہتی ہے۔
تجویز (Call to Action)
-
عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی بصیرت کا استعمال کریں۔
-
میڈیا کو چاہیے کہ وہ حقائق پر مبنی صحافت کرے، نہ کہ صرف پسندیدہ حکمرانوں کا دفاع۔
-
اور حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ ہر ڈرامے کو نہیں بلکہ ہر تبدیلی کو یاد رکھتی ہے۔