جہاں بھی ہوں، حملہ کریں گے”: نیتن یاہو کا اعلان اور مشرق وسطیٰ میں نئی کشیدگی کی لہر

قطر میں موجود حماس رہنما گزشتہ روز کے اسرائیلی حملے میں محفوظ رہے

نیتن یاہو کا اعلان: “حماس کے رہنما دنیا کے کسی بھی کونے میں محفوظ نہیں”

اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے اپنے تازہ ترین اور نہایت سخت بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل، حماس کے رہنماؤں کو جہاں کہیں بھی پایا جائے گا، نشانہ بنائے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل کے خلاف کسی بھی دہشت گرد کارروائی میں ملوث عناصر کو دنیا کے کسی بھی حصے میں محفوظ نہیں رہنے دیا جائے گا۔

“ہم انہیں تلاش کریں گے، چاہے وہ غزہ میں ہوں یا قطر، بیروت میں ہوں یا دمشق — ہم ان پر حملہ ضرور کریں گے۔”
نیتن یاہو، اسرائیلی وزیراعظم

یہ بیان حماس کی عالمی قیادت کو براہِ راست دھمکی تصور کیا جا رہا ہے، جو کئی ممالک میں سیاسی یا عسکری پناہ لیے ہوئے ہیں۔


 پس منظر: حماس اور اسرائیل کی پرانی جنگ، نئی جہت میں

🔹 تنازع کا تسلسل

حماس اور اسرائیل کے درمیان تصادم کی تاریخ تین دہائیوں سے زائد پر محیط ہے۔

  • 2006 میں حماس کی غزہ میں حکومت کے بعد سے اسرائیل نے نہ صرف غزہ کو محاصرے میں رکھا بلکہ متعدد جنگیں بھی کیں۔

  • ہر جنگ کے بعد اسرائیل نے “targeted killings” کی پالیسی اپنائی، جس میں ڈرون حملے، خفیہ آپریشنز، اور غیر ملکی زمین پر کارروائیاں شامل تھیں۔

🔹 حالیہ شدت

2025 میں اسرائیل اور حماس کے درمیان تصادم نے ایک بار پھر شدت اختیار کر لی ہے، جس میں غزہ پر حملے، اور بیرونِ ملک حماس رہنماؤں کو نشانہ بنانا شامل ہے۔


 حالیہ ٹارگٹڈ حملے:

🔹 بیروت

حالیہ ہفتوں میں بیروت کے جنوبی علاقوں میں اسرائیلی ڈرون حملوں میں حماس کے سینئر کمانڈر ہلاک ہوئے۔
لبنان نے اسے اپنی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

🔹 دمشق

دمشق میں متعدد اسرائیلی فضائی حملے دیکھنے میں آئے جن میں حماس اور حزب اللہ کے کمانڈرز کو نشانہ بنایا گیا۔
شام نے ان حملوں پر شدید احتجاج کیا اور اقوامِ متحدہ میں باقاعدہ شکایت جمع کرائی۔

🔹 قطر

قطر میں مقیم حماس کی سیاسی قیادت (بشمول اسماعیل ہنیہ) پر اسرائیلی انٹیلی جنس کی نگرانی کی خبریں منظرِ عام پر آ چکی ہیں، جس پر قطر نے سفارتی ردعمل دیا ہے۔


 قانونی تناظر: بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی؟

بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی پالیسی بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر، اور خودمختار ممالک کے حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔

 اقوام متحدہ کا مؤقف

  • اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بین الاقوامی سرزمین پر یک طرفہ حملے عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔

  • اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیلی حملوں پر ہنگامی اجلاس بلانے کی کوشش جاری ہے، مگر امریکہ کی حمایت سے کوئی مذمتی قرارداد منظور ہونے کے امکانات کم ہیں۔


 اسرائیلی پالیسی کا مقصد کیا ہے؟

1. حماس کو عالمی سطح پر کمزور کرنا

اسرائیل کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ حماس کی قیادت کو بیرون ملک غیر محفوظ بنا کر اس کی تنظیمی صلاحیت کو متاثر کرے۔

2. عوامی دباؤ کو کم کرنا

نیتن یاہو کی حکومت اندرونی سیاسی دباؤ کا شکار ہے، بالخصوص جنگی پالیسیوں پر۔
ایسے بیانات اور حملے عوام کو باور کراتے ہیں کہ حکومت کمزور نہیں۔

3. خطے میں پیغام دینا

نیتن یاہو کی اس حکمتِ عملی سے ایران، حزب اللہ اور دیگر گروہوں کو بھی واضح پیغام دیا جا رہا ہے کہ اسرائیل ہر ممکن حد تک جائے گا۔


عالمی ردعمل

🔹 ترکی

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل کے بیانات کو “ریاستی دہشت گردی” قرار دیا ہے۔

🔹 ایران

ایران نے اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے کسی بھی خودمختار ملک کی سرزمین پر مزید کارروائیاں کیں تو اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔

🔹 قطر

قطر نے نیتن یاہو کے بیان پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ “قطر کسی بھی ریاست کو اپنی سرزمین کو ٹارگٹ کلنگ کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔”


 تجزیاتی نکتہ نظر: یہ بیانیہ کتنا مؤثر؟

اسرائیل کی یہ پالیسی بظاہر “دفاعی” حکمتِ عملی کے طور پر پیش کی جا رہی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک جارحانہ اور خطرناک سفارتی پیش رفت ہے۔

 خطرناک نتائج:

  • علاقائی کشیدگی میں اضافہ

  • عالمی قانون کی ساکھ پر سوال

  • مسلم دنیا میں اشتعال

  • عالمی دہشت گردی کے بیانیے کو تقویت

سیاسی فائدہ، مگر وقتی

نیتن یاہو کو اندرونِ ملک سیاسی فائدہ ضرور ملے گا، لیکن طویل مدتی طور پر اسرائیل تنہا ہونے کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔


نتیجہ: کیا امن کی امید باقی ہے؟

نیتن یاہو کا حالیہ بیان اس بات کی علامت ہے کہ اسرائیل اب صرف غزہ کی جنگ نہیں لڑ رہا، بلکہ ایک عالمی سطح کی “targeted war” شروع کر چکا ہے۔
ایسی جنگ کا دائرہ جب دنیا کے مختلف ممالک تک پھیل جائے، تو یہ نہ صرف بین الاقوامی سفارت کاری کے لیے چیلنج بن جاتی ہے بلکہ دنیا کو ایک نئی غیر اعلانیہ جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کرتی ہے۔

“جہاں امن کا دروازہ بند ہو، وہاں جنگ کی کھڑکیاں کھل جاتی ہیں”

مسلم دنیا، اقوام متحدہ، اور عالمی ضمیر کو اس پالیسی کا سنجیدگی سے نوٹس لینا ہوگا۔
اگر خاموشی جاری رہی، تو ایک دن ایسا بھی آ سکتا ہے کہ کوئی ریاست اپنی سرزمین پر دوسرے ملک کے حملوں کو “نارمل” سمجھنے لگے—اور یہی عالمی امن کا زوال ہوگا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں