“دشمنی کی دہائیوں کے بعد، کیا اسرائیل اور ایران میں واقعی امن کا معاہدہ ممکن ہے؟ صدر ٹرمپ کا دعویٰ نئی بحث چھیڑ رہا ہے۔”

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر عالمی سیاست میں ہلچل مچاتے ہوئے کہا ہے: “اسرائیل اور ایران کے درمیان معاہدہ ہو جائے گا، میں اسے یقینی بناؤں گا۔” اس بیان نے بین الاقوامی مبصرین کو چونکا دیا ہے، کیونکہ یہ دو ممالک ایک دوسرے کے شدید مخالف اور مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی کشیدگی کا مرکز ہیں۔
ایران اسرائیل دشمنی کی بنیاد:
1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے اسرائیل کے ساتھ تمام تعلقات منقطع کر دیے۔
ایران، اسرائیل کو ناجائز ریاست مانتا ہے اور “مقاومت” کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔
اسرائیل کا مؤقف ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام اور اس کے حمایت یافتہ گروہ (جیسے حزب اللہ) اسرائیل کے لیے براہ راست خطرہ ہیں۔
دشمنی کی جھلکیاں:
اسرائیل نے شام میں ایرانی تنصیبات پر بارہا حملے کیے۔
ایران نے اسرائیل پر سائبر حملوں اور پراکسی گروپوں کی مدد کا الزام اٹھایا۔
سفارتی تعلقات کی عدم موجودگی نے دونوں ممالک کو “سایہ جنگ” (shadow war) میں الجھا رکھا ہے۔
ٹرمپ کا کردار:
ابراہیم معاہدے (Abraham Accords):
ٹرمپ نے 2020 میں اسرائیل، UAE، بحرین، مراکش اور سوڈان کے درمیان تاریخی معاہدے کروائے۔
ایران مخالف پالیسی:
ٹرمپ نے 2018 میں JCPOA (ایران نیوکلئر ڈیل) سے امریکہ کو نکال کر ایران پر سخت پابندیاں لگائیں۔
ممکنہ حکمت عملی:
ٹرمپ اگر دوبارہ صدر بنتے ہیں، تو شاید اسرائیل اور ایران کے درمیان کسی “خاموش سمجھوتے” کی کوشش کریں، مگر یہ عسکری یا نیوکلئر سطح پر حفاظتی گارنٹی کے گرد محدود ہو سکتا ہے، مکمل سفارتی تعلقات کی بحالی نہیں۔
کیا معاہدہ ممکن ہے؟
مشکلات:
ایران کی مذہبی اور نظریاتی مخالفت
اسرائیل کی سیکیورٹی خدشات
ایران میں سخت گیر عناصر کی موجودگی
خطے میں پراکسی جنگوں کی شدت
امکانات (بہت کم لیکن دلچسپ):
اگر ایران میں معتدل حکومت آتی ہے
جوہری معاہدے کی بحالی اور مغرب سے اقتصادی مفادات
سعودی عرب جیسے ممالک کی ثالثی
صدر ٹرمپ کا بیان سیاسی طور پر جتنا جاذب نظر ہے، اتنا ہی عملی طور پر پیچیدہ بھی۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان معاہدہ محض ایک “ڈیل میکر” کے دعوے سے نہیں، بلکہ برسوں پر محیط اعتماد سازی، خطے میں پالیسی شفٹ، اور بین الاقوامی دباؤ سے ہی ممکن ہوگا — اور وہ بھی صرف ایک محدود دائرے میں۔