سعودی عرب سے معاہدہ ایک رات میں طے نہیں پاگیا – اسحاق ڈار

وزیراعظم شہباز شریف کا سعودی عرب میں شاندار استقبال: فضائیہ کے F-15 لڑاکا طیاروں نے دی پرتپاک سلامی

سعودی عرب سے معاہدہ ایک رات میں طے نہیں پاگیا – اسحاق ڈار

معاہدے کی تفصیلات، پسِ منظر اور حکومتی مؤقف پر ایک نظر

 تعارفی جُملہ:

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور موجودہ سینیئر سیاستدان اسحاق ڈار نے ایک اہم بیان میں واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ ہونے والا حالیہ اقتصادی معاہدہ ایک رات کی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ایک طویل سفارتی اور تکنیکی مشاورت کا ثمر ہے۔

 اسحاق ڈار کا بیان: “یہ فوری طور پر نہیں ہوا”

اسحاق ڈار نے کہا:

“یہ معاہدہ ایک رات میں نہیں ہوا، اس کے پیچھے کئی ماہ کی محنت، گفت و شنید، اور کئی سطحوں پر بات چیت شامل ہے۔ ہم نے قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے اس عمل کو مکمل کیا۔”

ان کے مطابق، سعودی عرب سے تعلقات صرف مالی تعاون تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک دیرینہ اسٹریٹجک شراکت داری میں بدل چکے ہیں، جسے مختلف ادوار میں مستحکم کرنے کی ضرورت رہی ہے۔

 معاہدے کی نوعیت: سرمایہ کاری یا قرض؟

حالیہ اطلاعات کے مطابق، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے، اس میں:

  • اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری
  • ممکنہ آئل ریفائنری پراجیکٹس
  • ری نیوایبل انرجی، مائننگ، اور انفراسٹرکچر میں تعاون
  • اور بعض اطلاعات کے مطابق قرض یا ڈیپازٹ پر بھی غور شامل ہے

ڈار کے بیان سے یہ تاثر ملا کہ یہ صرف ایک مالی امداد نہیں، بلکہ ایک اقتصادی پارٹنرشپ ہے۔

 پسِ منظر: مذاکرات کا عرصہ اور کوششیں

اسحاق ڈار نے اس بات پر زور دیا کہ یہ معاہدہ کسی ایک حکومت یا وزارت کی کاوش نہیں، بلکہ:

  • وزارتِ خزانہ، خارجہ امور، BOI (بورڈ آف انویسٹمنٹ)،
  • اور وزیراعظم آفس سمیت متعدد اداروں کی مشترکہ محنت تھی۔

یہ بات چیت کئی ماہ سے جاری تھی اور اس دوران سعودی وفود نے پاکستان کا دورہ کیا، جبکہ پاکستانی وفود نے بھی ریاض میں اہم ملاقاتیں کیں۔

 سعودی عرب کا نقطۂ نظر

سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں Vision 2030 کے تحت اپنی معیشت کو متنوع بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا:

  • ایک اسٹریٹجک فیصلہ ہے
  • دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط کرتا ہے
  • اور پاکستان کے لیے معاشی استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے

 مخالفین کی تنقید اور اسحاق ڈار کا ردعمل

حکومتی مخالفین کی طرف سے اس معاہدے کو “سیاسی ڈرامہ” یا “قرض پر انحصار” قرار دیا گیا، جس پر اسحاق ڈار نے واضح کہا:

“سعودی عرب پاکستان کا برادر ملک ہے، اور ایسے تعلقات پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ یہ معاہدہ نہ تو کوئی دکھاوا ہے، نہ ہی وقتی سہارا، بلکہ اس کا مقصد معیشت کو پائیدار بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے۔”

 ممکنہ فوائد:

  1. ڈالر ریزرو میں اضافہ
  2. سرمایہ کاری کے ذریعے روزگار کے مواقع
  3. توانائی کے شعبے میں بہتری
  4. بین الاقوامی اعتماد میں اضافہ

قومی اہمیت کا معاملہ

یہ معاہدہ پاکستان کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ ملک اس وقت:

  • مالی بحران،
  • مہنگائی،
  • اور قرضوں کے بوجھ
    کا سامنا کر رہا ہے۔

سعودی تعاون نہ صرف قلیل مدتی مالی سہارا فراہم کر سکتا ہے، بلکہ طویل مدتی ترقی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔


 معاہدے کی گہرائی کو سمجھنا ہوگا

اسحاق ڈار کا بیان اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ بین الاقوامی معاہدے “ایک رات” میں نہیں ہوتے۔ ان کے پیچھے سفارتی، معاشی، اور تزویراتی سطحوں پر مسلسل محنت شامل ہوتی ہے۔

سعودی عرب کے ساتھ ہونے والا معاہدہ صرف آج کا فائدہ نہیں بلکہ کل کی معیشت کا سنگِ بنیاد ثابت ہو سکتا ہے — بشرطیکہ اس پر شفافیت، مستقل مزاجی، اور قومی مفاد کو ترجیح دی جائے۔


اگر آپ چاہیں تو میں اس معاہدے سے متعلق صحیح اعداد و شمار، شرائط یا سعودی حکومت کے ردعمل پر بھی مزید معلومات فراہم کر سکتا ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں