“سچ کہنا جرم بن گیا؟ حامد میر نے سب کو آڑے ہاتھوں لیا!”

سچ بولنے کا حوصلہ ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا، خاص طور پر اُس ماحول میں جہاں سچ بولنے کی قیمت جلاوطنی، پابند سلاسل ہونا یا حتیٰ کہ جان سے ہاتھ دھونا بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں ایسے ماحول میں ایک آواز جو ہمیشہ غیر معمولی جرات کے ساتھ ابھرتی رہی ہے، وہ ہے حامد میر کی۔ حامد میر، جو نہ صرف سینئر صحافی ہیں بلکہ سچائی کے متلاشیوں کے لیے ایک نشانِ راہ بھی بن چکے ہیں، ایک بار پھر اپنے بے باک تبصرے کی وجہ سے خبروں میں ہیں۔ ان کے تازہ ترین بیان نے ملکی صحافت، عدلیہ اور سیاست کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی ہے۔

اپنے حالیہ پروگرام میں انہوں نے کہا کہ سچ کو دبانے میں صرف سیاستدان یا صحافی ہی نہیں بلکہ کچھ ججز بھی برابر کے شریک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض عدالتی فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو انصاف کے نام پر ناانصافی کی بدترین مثال بن جاتے ہیں۔ جب جج اپنے فیصلوں کے ذریعے سچ کو دبانے میں مددگار بن جائیں، تو پھر سچ کہاں جائے؟ ان کا یہ جملہ کہ “سچ کے لیے خطرہ ججز بھی ہیں” نہ صرف چونکا دینے والا ہے، بلکہ ایک بڑے المیے کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس پر بات کرنا ضروری ہے۔

حامد میر نے اپنے شعبے کے لوگوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے صحافی بھی موجود ہیں جو صرف طاقتور اداروں کا بیانیہ آگے بڑھاتے ہیں، اور جو سچ بولنے کی کوشش کرے، اسے غدار، ایجنٹ یا ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ حامد میر کی آواز اس خاموشی میں ایک گونج کی مانند ہے جو ان سب لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے جو جانتے تو ہیں کہ کیا صحیح ہے، مگر بولنے سے ڈرتے ہیں۔

انہوں نے سیاستدانوں کی خاموشی پر بھی سوال اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کی سیاست مفاہمت کے پردے میں منافقت کا شکار ہو چکی ہے۔ وہ سیاستدان جو خود کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں، وہ سچائی اور انصاف کے حق میں آواز بلند کرنے سے کتراتے ہیں۔ ایسے میں جب مظلوم کی کوئی نہیں سنتا اور ظالم کو تحفظ ملتا ہے، تو پھر سچ بولنے والوں کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ حامد میر نے عدلیہ، میڈیا اور سیاست کے کردار پر سوال اٹھائے ہوں۔ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں سچ بولنا سب سے بڑا جرم بن چکا ہے۔ ان کے مطابق اظہارِ رائے کی آزادی صرف آئین کی کتاب میں لکھی گئی ایک سطر بن چکی ہے، جس پر عمل درآمد کرنے کا مطلب صرف مصیبت مول لینا ہے۔

ایسے حالات میں حامد میر کی آواز ایک امید ہے، ایک روشنی ہے جو بتاتی ہے کہ ہر طرف اندھیرا نہیں، کہیں نہ کہیں کوئی ہے جو سچائی کے لیے کھڑا ہے۔ ان کے الفاظ تلخ ضرور ہوتے ہیں، مگر ان کی تلخی وہی ہے جو دوا میں ہوتی ہے – تکلیف دہ مگر شفا بخش۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ سچ بولتے رہیں گے، چاہے اس کی قیمت کچھ بھی ہو۔ یہی وہ جذبہ ہے جو زندہ قوموں کا اثاثہ ہوتا ہے۔

حامد میر کی تنقید ایک شخصی ردعمل نہیں، بلکہ ایک اجتماعی ضمیر کی پکار ہے۔ اگر ہم واقعی سچ کے متلاشی ہیں تو ہمیں یہ آواز نہ صرف سننی ہوگی بلکہ سمجھنی بھی ہوگی۔ ورنہ ایک دن سچ دفن ہو جائے گا، اور ہمیں پتا بھی نہیں چلے گا کہ ہم نے کیا کھو دیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں