شکر ہے، اُنہیں بھی یاد آگیا!

وزیراعظم شہباز شریف ہنگامی عرب-اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے دوحہ پہنچ گئے

دوحہ عرب-اسلامک سمٹ میں امیر قطر کی اسرائیل پر کڑی تنقید: “غزہ کو ناقابلِ رہائش بنانے پر تُلا ہوا ہے”


پس منظر: غزہ میں کیا ہو رہا ہے؟

غزہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل بن چکا ہے۔ مہینوں سے جاری اسرائیلی بمباری، زمینی کارروائیاں، اور محاصرہ لاکھوں فلسطینیوں کے لیے قیامت سے کم نہیں۔

  • اسپتال ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں
  • بچے غذائی قلت سے مر رہے ہیں
  • عورتیں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں
  • بنیادی ضروریات — پانی، بجلی، ادویات، خوراک — سب بند

عالمی برادری کی خاموشی اور مسلم دنیا کی بے حسی نے اس درد کو اور بڑھا دیا ہے۔


دوحہ عرب-اسلامک سمٹ: کب اور کہاں؟

تاریخ: 14 ستمبر 2025
مقام: دوحہ، قطر
ایونٹ: ہنگامی عرب-اسلامک سمٹ

اس سمٹ کا مقصد غزہ کی نازک صورتحال پر مشترکہ حکمت عملی بنانا تھا۔ اس موقع پر کئی مسلم ممالک کے سربراہان نے شرکت کی، لیکن امیر قطر کا خطاب سب پر بازی لے گیا۔


امیر قطر کا واضح موقف: “یہ صرف جنگ نہیں، نسل کشی ہے”

اپنے دلیرانہ خطاب میں شیخ تمیم بن حمد الثانی نے کہا:

“اسرائیل منظم طریقے سے غزہ کو ایسا علاقہ بنانے میں مصروف ہے جہاں انسان رہ نہ سکیں۔ یہ صرف ایک عسکری کارروائی نہیں، بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی جانے والی نسل کشی ہے۔”

انہوں نے عالمی طاقتوں کی منافقت پر بھی تنقید کی اور کہا کہ:

“جن ممالک نے یوکرین کے لیے ہر ممکن امداد بھیجی، وہ غزہ کے معصوم بچوں کی لاشوں پر خاموش کیوں ہیں؟”


غزہ کے زمینی حقائق پر روشنی

امیر قطر نے اعداد و شمار کے ساتھ زمینی صورتحال کو واضح کیا:

  • 75% سے زائد عمارتیں تباہ
  • 60% سے زائد آبادی بے گھر
  • ہزاروں بچے یتیم
  • خوراک اور پانی کا مکمل قحط
  • میڈیا پر پابندیاں تاکہ دنیا سچ نہ دیکھ سکے

انہوں نے کہا:

“جب دنیا خاموش ہوتی ہے، تب ظالم مزید طاقتور ہو جاتا ہے۔”


عالمی برادری کے لیے پیغام: “اب بہت ہو چکا”

شیخ تمیم نے اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

“یہ وقت بیانات دینے کا نہیں، عملی قدم اٹھانے کا ہے۔ اگر آپ واقعی انسانی حقوق کے علمبردار ہیں تو پھر غزہ میں ہو رہے مظالم پر خاموشی کیوں؟”

انہوں نے مطالبہ کیا کہ:

  • فوری جنگ بندی کرائی جائے
  • انسانی امداد کی رسائی بحال کی جائے
  • اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت میں لایا جائے

مسلم دنیا کے لیے کڑوا سچ: “ہم کتنے بے بس ہیں؟”

امیر قطر نے امت مسلمہ کو بھی جھنجھوڑتے ہوئے کہا:

“ہم کب تک محض بیانات سے کام چلائیں گے؟ اگر ہم واقعی ایک جسم کی مانند ہیں، تو غزہ میں ہونے والے ظلم پر ہمارا جسم کیوں ساکت ہے؟”

انہوں نے تین اہم نکات پیش کیے:

  1. مسلم ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کریں
  2. غزہ کے لیے مشترکہ فنڈ اور ریلیف مشن تشکیل دیں
  3. متحد ہو کر عالمی پلیٹ فارمز پر آواز اٹھائیں

“شکر ہے، انہیں بھی یاد آ گیا” — یہ جملہ کیوں اہم ہے؟

یہ جملہ کسی طنز یا جذباتی ردعمل سے زیادہ ایک آئینہ ہے — کہ جب بہت سی مسلم قیادت یا عالمی طاقتیں خاموش رہیں، تو کم از کم قطر نے آواز اٹھائی۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ:

  • جب ظلم عام ہو جائے
  • اور دنیا تماشائی بن جائے
  • تو سچ بولنا سب سے بڑا عمل بن جاتا ہے

یہ جملہ اس سچ کی علامت ہے۔


🌍 کیا ہم تاریخ کے درست طرف کھڑے ہیں؟

آج اگر ہم نے آواز نہ اٹھائی تو کل ہمارے لیے کوئی آواز نہیں اٹھائے گا۔ امیر قطر کی باتیں محض تقریر نہیں، ضمیر کی آواز ہیں۔

یاد رکھیں:

“ظلم کے خلاف خاموشی، دراصل ظالم کے ساتھ کھڑے ہونے کے مترادف ہے۔”


اختتامیہ: اب عمل کا وقت ہے، الفاظ کا نہیں

دوحہ سمٹ ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے — اگر مسلم دنیا صرف الفاظ پر نہ رکے بلکہ اقدامات کرے۔

  • عالمی سطح پر سفارتی دباؤ
  • اقتصادی بائیکاٹ
  • انسانی امداد کی فوری فراہمی

یہ سب تب ہی ممکن ہے جب ہر ملک، ہر فرد، اور ہر ادارہ خاموشی توڑ دے۔


سوچنے کے لیے لمحہ:

اگر ہم آج غزہ کے بچوں کی چیخیں نہیں سنیں گے، تو کل تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔


اگر آپ چاہیں تو اس کا پی ڈی ایف، سوشل میڈیا پوسٹ، یا ویڈیو اسکرپٹ بھی تیار کر سکتا ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں