فلسطینی ریاست کی حمایت پر نیتن یاہو کے بیٹے نے فرانسیسی صدر کو گالی دے دی

“کیا اسرائیل اور ترکی یہ طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شام پر حکمرانی کا اختیار کس کے پاس ہونا چاہیے؟”اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے بیٹے یائیر نیتن یاہو نے ایک بار پھر سوشل میڈیا پر ایسا طوفان کھڑا کر دیا ہے جس نے بین الاقوامی سفارتی دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ اس بار ان کا ہدف کوئی عام شخصیت نہیں، بلکہ فرانس کے صدر ایمانویل میکرون تھے۔ وجہ؟ فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حمایت کا عندیہ۔

فرانسیسی صدر نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ فرانس ممکنہ طور پر اقوام متحدہ کی آئندہ کانفرنس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ صرف فلسطینیوں کی حمایت نہیں، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں امن کی راہ ہموار کرنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن یہ بات اسرائیلی قیادت کو بری لگی، اور سب سے زیادہ غصے کا اظہار خود نیتن یاہو کے بیٹے یائیر نے کیا۔

یائیر نیتن یاہو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر صدر میکرون کو نہ صرف سخت تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ نازیبا الفاظ بھی استعمال کیے، جن پر بعد ازاں کافی لے دے ہوئی۔ ان کے الفاظ میں تلخی اور شدت پسندی نمایاں تھی۔ انہوں نے میکرون کو طعنہ دیتے ہوئے لکھا کہ اگر وہ واقعی آزادی کے حق میں ہیں تو پہلے نیو کیلیڈونیا، کورسیکا، فرانسیسی پولینیشیا اور دیگر نوآبادیاتی علاقوں کو آزاد کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یائیر نے فرانسیسی گویانا کو غلطی سے “فرانسیسی گنی” لکھ دیا، جس پر سوشل میڈیا صارفین نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔

ادھر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی بیٹے سے کم جذباتی انداز میں، مگر سخت الفاظ میں فرانسیسی صدر کے بیان کو “بڑی غلطی” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسی ریاست کو تسلیم کرنے کی بات ہو رہی ہے جس کا مقصد ہی اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹانا ہے۔ نیتن یاہو نے فلسطینی قیادت پر الزام لگایا کہ وہ آج تک 7 اکتوبر 2023 کے حملے کی مذمت تک نہیں کر پائے، اور یہی ان کی اسرائیل دشمنی کا ثبوت ہے۔

نیتن یاہو نے مزید کہا کہ فرانس کو ہمیں اخلاقیات کا درس دینے کا کوئی حق نہیں کیونکہ وہ خود اپنے نوآبادیاتی علاقوں کو آزادی دینے کو تیار نہیں، حالانکہ ان کی آزادی فرانس کے وجود کے لیے خطرہ نہیں بنتی۔

فرانسیسی صدر نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کسی دباؤ کے تحت نہیں بلکہ اصولی مؤقف کی بنیاد پر کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر فلسطینیوں کو ریاست کا حق ہے تو اسرائیلیوں کو بھی پرامن زندگی کا حق حاصل ہے۔ لیکن ان کا یہی متوازن مؤقف بھی اسرائیل کو ہضم نہ ہو سکا۔

یہ تنازع صرف دو شخصیات کے درمیان لفظی جنگ نہیں، بلکہ یہ اس بات کا آئینہ ہے کہ فلسطینی ریاست کی حمایت کرنے پر دنیا کو کن دباؤوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج 150 سے زائد ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں، لیکن جب کوئی طاقتور مغربی ملک جیسے کہ فرانس، کھل کر اس حمایت کا اعلان کرتا ہے، تو اسرائیل کی جانب سے سخت ردعمل آتا ہے۔

یائیر نیتن یاہو کا اس طرح سوشل میڈیا پر اخلاق سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کرنا صرف ان کی شخصیت کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ اس اسٹیبلشمنٹ کی ذہنیت بھی ظاہر کرتا ہے جس کے وہ نمائندہ ہیں۔ دوسری جانب میکرون کا یہ مؤقف کہ فلسطینی ریاست کا قیام امن کی طرف ایک قدم ہے، ایک ایسا بیانیہ ہے جسے دنیا کے کئی انصاف پسند حلقے سراہ رہے ہیں۔

یہ سب کچھ ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ آج بھی جب کوئی طاقتور ملک فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہے، تو وہ تنقید، دباؤ اور حتیٰ کہ گالیوں کا سامنا کرتا ہے۔ اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب غزہ میں لاشیں گرتی ہیں، بچے یتیم ہوتے ہیں اور دنیا صرف بیانات تک محدود ہے۔

کیا فرانس واقعی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا؟ کیا اسرائیل اس دباؤ کے سامنے جھکے گا یا اپنی پوزیشن پر قائم رہے گا؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اس وقت جو بات طے ہے، وہ یہ ہے کہ فلسطین کا مسئلہ اب صرف مشرق وسطیٰ کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ ایک عالمی ضمیر کا امتحان بن چکا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں