قطر میں اسرائیلی حملہ — حماس قیادت کو نشانہ بنایا گیا، عمارت میں “ٹرمپ کی نئی امن ڈیل” پر مشاورت جاری تھی!

قطر کی میزبانی میں ایک اہم اجلاس جاری تھا، جس میں حماس کے اعلیٰ رہنما، قطری حکام، مصری سفارت کار اور امریکی ثالث شرکت کر رہے تھے۔ اس اجلاس میں مشرق وسطیٰ کے لیے ایک نئے امن منصوبے پر بات چیت ہو رہی تھی، جسے غیر رسمی طور پر “ٹرمپ کی نئی امن ڈیل” کہا جا رہا ہے۔ اس منصوبے میں غزہ میں مستقل جنگ بندی، یرغمالیوں کا تبادلہ اور تعمیر نو کی شرائط زیرِ بحث تھیں۔
### **حملے کی نوعیت**
عین اس وقت جب یہ مشاورتی اجلاس جاری تھا، اسرائیلی فضائیہ نے اس عمارت پر حملہ کیا جس میں اجلاس ہو رہا تھا۔ حملہ انتہائی ہدفی اور محدود نوعیت کا تھا، جس میں اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ صرف “دہشت گرد عناصر” کو نشانہ بنایا گیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، حملے میں حماس کا ایک سینیئر رہنما زخمی یا ہلاک ہوا ہے، تاہم اس کی شناخت فی الحال ظاہر نہیں کی گئی۔
—
### **قطر اور عالمی ردعمل**
* **قطر نے حملے کو اپنی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے**۔ قطری وزارت خارجہ نے اسرائیل کے اس اقدام کو “ریاستی دہشت گردی” قرار دیتے ہوئے فوری طور پر عالمی برادری سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔
* **اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹریس** نے بھی اس حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایک خودمختار ملک میں جاری امن مذاکرات کو نشانہ بنانا ناقابلِ قبول ہے۔
* **مصر، سعودی عرب، اردن، ایران اور ترکی** نے بھی اسرائیل کی کارروائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
—
### **حماس اور مذاکرات پر اثرات**
حماس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ حملہ شدید نوعیت کا تھا، مگر وہ امن مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ البتہ حماس نے امریکہ سے وضاحت طلب کی ہے کہ اسرائیل کو اس اجلاس کی معلومات کیسے ملیں، اور یہ کہ کیا اسرائیل کو امریکی حمایت حاصل تھی؟
مصر اور قطر نے بھی اپنی ثالثی کے کردار پر سوالات اٹھائے ہیں، کیونکہ حملے سے نہ صرف امن بات چیت کو نقصان پہنچا ہے بلکہ ثالثی کی غیرجانبداری بھی متاثر ہوئی ہے۔
—
### **ٹرمپ کی “نئی امن ڈیل” کیا ہے؟**
یہ منصوبہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک نئی سفارتی کوشش ہے، جو ان کے مشرق وسطیٰ کے لیے دوسرے مجوزہ “صدی کی ڈیل” کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس منصوبے میں شامل نکات میں درج ذیل امور شامل تھے:
* غزہ میں فوری جنگ بندی
* تمام یرغمالیوں کی رہائی
* اسرائیل کی بعض سرحدی شرائط کا ازسرِنو تعین
* غزہ کی تعمیر نو کے لیے بین الاقوامی فنڈ
* حماس اور دیگر گروہوں کو سیاسی دھارے میں لانے کی کوشش
اس منصوبے کی خاص بات یہ تھی کہ اس بار قطر، مصر اور امریکہ مل کر ثالثی کر رہے تھے، جبکہ اسرائیل اور حماس کے نمائندے بالواسطہ طور پر اس میں شامل تھے۔
—
### **مستقبل کی صورت حال**
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:
1. کیا امن عمل اسی مقام پر رک جائے گا؟
2. کیا قطر اس حملے کے بعد ثالثی کا کردار جاری رکھے گا؟
3. کیا اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ بڑھے گا یا امریکہ خاموشی اختیار کرے گا؟
یہ حملہ نہ صرف سفارتی طور پر ایک سنگین موڑ ہے بلکہ ممکنہ طور پر خطے میں ایک نئی کشیدگی کو جنم دے سکتا ہے۔