“محبت، خاموشی اور فاصلے: والدین اور اولاد کے درمیان ایک ان کہی کہانی”

کئی دنوں سے دل میں ایک بےچینی سی ہے۔ جیسے کوئی دھند ہے جو نہ صاف ہو رہی ہے، نہ ختم… اور اس دھند میں جو رشتہ سب سے قیمتی ہونا چاہیے، وہی سب سے زیادہ الجھا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ والدین اور اولاد—دو ایسے کردار جو زندگی کے سفر میں ایک دوسرے کا سہارا بننے کے لیے آئے تھے، آج شاید ایک دوسرے کی زبان ہی نہیں سمجھ پا رہے۔

نہ کوئی کھلا شکوہ ہے، نہ واضح شکایت۔ بس خاموشی ہے، مگر دلوں میں شور ہے۔ محبت ہے، مگر رابطے میں دراڑ آ گئی ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی بچہ دل میں ایک سوال لیے جیتا ہے کہ کیا صرف “سمجھنا” اس کا فرض ہے؟ کیا والدین کو “سمجھانا” اُس کی گستاخی بن جاتی ہے؟ اور ہر روز کوئی نہ کوئی ماں یا باپ یہ سوچتا ہے کہ جو ہم نے دیا، کیا وہ کافی نہیں تھا؟

یہ مضمون کوئی فلسفہ نہیں، یہ ایک دل کی آواز ہے—ایک ایسا دل جو والدین سے محبت کرتا ہے، عزت کرتا ہے، لیکن کہیں رستوں میں الفاظ ختم ہو گئے اور جذبات بھٹک گئے۔ یہ تحریر کسی ایک شخص کی نہیں، ان سب کی ہے جو رشتوں میں الجھے ہیں، دل میں درد رکھتے ہیں، مگر چہروں پر سب ٹھیک ہونے کا نقاب اوڑھ کر جیتے ہیں۔

ہر بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے، تو پہلا لمس ماں کا ہوتا ہے، اور پہلا سایہ باپ کا۔ وہ دونوں اس کے لیے دنیا کا سب کچھ بن جاتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ اگر یہی لمس اجنبیت میں بدل جائے، اور وہ سایہ بھاری ہو جائے، تو وہ ننھی جان کہاں جائے؟ اسلام ہمیں والدین کی عزت کا درس دیتا ہے، لیکن اسی دین نے عدل، فہم اور احساس کو بھی فرض قرار دیا ہے۔ اگر والدین کو عزت ملنی چاہیے، تو اولاد کو بھی انسان سمجھا جانا چاہیے۔

کچھ بچے صرف اس لیے بغاوت نہیں کرتے کہ وہ بدتمیز ہیں، بلکہ اس لیے کہ اُنہیں بار بار نظر انداز کیا گیا۔ کبھی اُن کے خواب دوسروں کے خوابوں سے موازنہ کر کے چھین لیے گئے، کبھی اُن کی آواز کو گستاخی کا نام دے دیا گیا۔ کبھی اُن کی خاموشی کو انا سمجھا گیا، حالانکہ وہ بس تھک چکے تھے۔ ہر بار جب کوئی ماں اپنے دودھ کا واسطہ دے کر بددعا دیتی ہے، یا کوئی باپ دروازہ بند کر کے خاموشی اوڑھ لیتا ہے، تو وہ بچہ اندر سے کچھ اور مر جاتا ہے۔

محبت اگر احسان کی زبان میں بولی جائے تو وہ محبت نہیں رہتی، ایک بوجھ بن جاتی ہے۔ والدین اکثر یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تمہارے لیے سب کچھ کیا۔ لیکن کبھی یہ نہیں پوچھا کہ تم کیسا محسوس کرتے ہو؟ کیا تم خوش ہو؟ کیا تم وہ زندگی جی رہے ہو جو تم چاہتے تھے؟ والدین کے خواب بچوں پر ذمہ داری بن جائیں تو وہ صرف زندہ رہتے ہیں، جیتے نہیں۔

کسی بچے کو یہ کہنا کہ “تجھ سے کچھ نہیں ہوگا” یا “ہم نے تمہیں سب کچھ دیا، اور تم نے ہمیں کیا دیا؟” اس کی خودی، اس کی شناخت، اس کا حوصلہ چُرا لیتے ہیں۔ پھر وہ بچہ صرف approval کے پیچھے بھاگتا ہے، اپنی اصل ذات سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔

ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اولاد گستاخ نہیں ہوتی، بس زخمی ہوتی ہے۔ وہ صرف محبت چاہتی ہے—ایسی محبت جس میں قبولیت ہو، احساس ہو، اور کوئی شرط نہ ہو۔ اور والدین… آپ واقعی عظیم ہیں۔ آپ کی قربانیاں انمول ہیں۔ لیکن کیا یہ کافی ہے کہ آپ نے سب کچھ دیا؟ یا ضروری ہے کہ آپ نے سنا بھی، سمجھا بھی، اور اپنے بچوں کے دل کو وہ تحفظ دیا جس کی انہیں سب سے زیادہ ضرورت تھی؟

رشتے صرف فرائض کا نام نہیں، یہ جذبات کا بندھن ہیں۔ اگر ان میں رحم نہ ہو، عدل نہ ہو، تو پھر وہ رشتے صرف ذمہ داریاں رہ جاتے ہیں، محبت نہیں۔

تو آئیے، ہم سب دعا کریں—کہ ہماری نسلوں میں وہ محبت، وہ فہم، وہ رحمت آ جائے جو رشتوں کو مضبوط کرے، نہ کہ زخم دے۔ ہم وہ اولاد بنیں جن پر والدین کو فخر ہو، اور والدین وہ بنیں جن کی گود سچ میں جنت ہو۔ اور اگر کبھی کوئی بچہ خاموش ہو، تو اس کی چپ کو اس کی گستاخی نہ سمجھا جائے… بلکہ اُس کی آواز سنی جائے۔

اور آخر میں، دعا یہی ہے کہ یہ تحریر صرف الفاظ نہ ہو، بلکہ ہر اُس دل کی آواز بنے جو رشتوں کے شور میں اپنا سکون کھو چکا ہے۔

آمین یا رب العالمین۔“بچوں کی تربیت میں توازن کیسے قائم رکھیں؟ والدین اور زوجین کی زندگی میں ہم آہنگی”

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں