نسانیت کا نوحہ: راجن پور کا نوجوان، جو سیلاب زدگان کی مدد کو نکلا، خود زندگی کی جنگ ہار گیا

نوجوان جو جیا دوسروں کے لیے — اور مر رہا ہے نظام کی خاموشی میں
خواب، فاقے، قربانی — راجن پور سے لاہور کا سفر
یہ کہانی ہے ایک ایسے نوجوان کی جو محرومی، غربت، اور تکلیف کے اندھیروں سے نکل کر علم اور خدمت کے چراغ روشن کرنے نکلا۔
راجن پور کے پسماندہ علاقے کا رہائشی یہ لڑکا:
-
بچپن ہی میں باپ کے سائے سے محروم ہو گیا
-
ایک بوڑھی، بیمار ماں اور دو نابالغ بہنوں کی کفالت کا واحد سہارا بن گیا
-
دن میں محنت مزدوری اور رات کو تعلیم
-
آخرکار لاہور کی ایک یونیورسٹی تک پہنچا — وہ بھی وظائف اور قرضوں کے سہارے
“ماں کا سہارا بننا، بہنوں کو پڑھانا، اور اپنے علاقے کے بچوں کے لیے مثال بننا”
سیلاب زدگان کے درمیان، ایک جذبہ بے لوثی کا
پھر وہ دن آیا، جب جلالپور، کوٹ مٹھن، اور دیگر علاقوں میں سیلاب نے قیامت ڈھا دی۔
نوجوان کو خبر ملی کہ:
-
بچے ننگے پاؤں بھوک سے بلک رہے ہیں
-
بوڑھی مائیں بیماری میں پانی کے بیچ پھنسی ہیں
-
گھروں کی چھتیں گر گئیں، سامان بہہ گیا
اس نے اپنے امتحانات، صحت، اور مصروفیات کو ایک طرف رکھا، لاہور سے سیدھا سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچا — اپنے بل بوتے پر، کسی حکومتی ادارے یا NGO کی مدد کے بغیر۔
وہاں وہ کیا کر رہا تھا؟
-
راشن تقسیم
-
بوڑھوں کو سہارا دے کر اونچے مقام پر لے جانا
-
بیمار بچوں کو کندھوں پر اٹھا کر اسپتال پہنچانا
-
ندی میں پھنسے مویشیوں کو بچانا
یہ سب کام وہ کیچڑ، گندے پانی، اور شدید گرمی میں کر رہا تھا — دن رات۔
ایک پل میں سب کچھ بدل گیا — پاگل کتے کا کاٹنا
ایک دن جب وہ ایک گلی میں راشن پہنچا کر واپس آ رہا تھا، اچانک ایک پاگل کتا اس پر جھپٹ پڑا۔ کتے نے:
-
ہاتھ اور ٹانگ پر گہرے زخم دیے
-
خون بہنے لگا، مگر نوجوان نے اگلے دن بھی کام جاری رکھا
اسے مقامی کلینک لے جایا گیا، جہاں ویکسین کا ایک انجکشن دیا گیا۔ لیکن:
-
نہ ویکسین مکمل تھی
-
نہ محفوظ طریقے سے ذخیرہ کی گئی تھی
-
نہ کوئی فالو اپ کیا گیا
بیماری کی بڑھتی ہوئی شدت — ریبیز کی واپسی
تین چار دن بعد:
-
جسم میں کپکپی
-
بخار، متلی
-
روشنی اور پانی سے خوف
-
غیر متعلق باتیں کرنا
-
چیخنا، رونا، ہذیان
جب اسے لاہور کے اسپتال منتقل کیا گیا تو ڈاکٹروں نے بتایا:
ریبیز (Rabies) کا انفیکشن دماغ تک پہنچ چکا ہے، اور اب علاج کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹرز کا بے بسی بھرا فیصلہ: “زہر کا انجکشن دے دیں”
ریبیز ایک ایسا مرض ہے جو جب دماغ تک پہنچ جائے، تو 99.99 فیصد مریض بچ نہیں پاتے۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں:
-
بروقت ویکسین دستیاب نہیں
-
تشخیص دیر سے ہوتی ہے
-
آئی سی یو کی سہولیات کم ہیں
وہاں ڈاکٹرز نے بے بسی سے ماں کو مشورہ دیا:
“بی بی، آپ کے بیٹے کو بچانا اب ممکن نہیں۔ وہ خود بھی اذیت میں ہے، اور دوسروں کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ آخری آپشن… زہر کا انجکشن ہے، تاکہ وہ پرسکون موت پا سکے۔”
ایک ماں کی سسکیاں — “میرا بیٹا، جو سب کے لیے جیتا تھا، کیا کوئی اس کے لیے کچھ کرے گا؟”
اس ماں کی چیخیں اسپتال کی دیواروں میں گونجتی ہیں:
“میرا بیٹا تو اوروں کی مدد کو گیا تھا، اسے مرنے کے لیے نہیں بھیجا تھا…
کیا کوئی ایسا نظام نہیں جو میرے جیسے غریبوں کے بیٹوں کو بچا سکے؟
کیا جذبے کی سزا موت ہے؟”
📉 سسٹم کا سقوط — کہاں تھے ادارے؟
یہ سانحہ کئی سوال چھوڑ گیا:
❓ بلدیہ کہاں تھی؟
-
آوارہ کتوں کے خاتمے کی کوئی اسکیم کیوں نہیں چلائی گئی؟
❓ محکمہ صحت کہاں تھا؟
-
ریبیز کی مکمل اور مؤثر ویکسین کیوں میسر نہیں تھی؟
NGOز کہاں ہیں؟
-
ایسے رضاکاروں کے لیے ہیلتھ پروٹوکولز کیوں نہیں ہوتے؟
ریاست کہاں ہے؟
-
آج تک کسی نے اس نوجوان کا حال پوچھا؟
قانون اور اخلاقیات — کیا ہم euthanasia (زہریلا انجکشن) کی طرف جا سکتے ہیں؟
پاکستان میں مرنے والے مریض کو “زہر کا انجکشن” دینا غیرقانونی ہے۔
مگر جب علاج ممکن نہ ہو، اور مریض انتہائی اذیت میں ہو، تو:
-
کیا ہمیں قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟
-
یا نظام کو اتنا مؤثر بنانے کی کہ ایسے مقام تک نوبت نہ آئے؟
یہ سوال اب ہمیں اجتماعی طور پر سوچنے ہوں گے۔
اختتامی پیغام: جذبے کو مرنے نہ دیں
یہ نوجوان تو شاید چند دنوں کا مہمان رہ گیا ہے…
مگر اس کی قربانی، اس کا جذبہ، اس کی سچائی — ہمیں بیدار کرنے کے لیے کافی ہے۔
“وہ جو جیا دوسروں کے لیے،
وہ نہ مرا،
وہ ہمیں جلا گیا…”
آپ کیا کر سکتے ہیں؟
-
سوشل میڈیا پر یہ کہانی شیئر کریں
-
#JusticeForVolunteer کے ساتھ مہم شروع کریں
-
مقامی ایم این اے، ایم پی اے سے سوال کریں
-
ویکسین اور ہیلتھ کیمپینز کے لیے آواز بلند کریں
-
اس نوجوان کے خاندان کے لیے مدد یا چندہ مہم کا آغاز کریں