پاکستان کی قومی اسمبلی نے پیر کو غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف قرارداد متقفہ طور پر منظور کر لی۔

پیر کے روز پاکستان کی قومی اسمبلی نے غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم کے خلاف ایک متفقہ قرارداد منظور کر کے نہ صرف فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، بلکہ عالمی ضمیر کو بھی جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔ یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں منظور کی گئی جب غزہ میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں جاری ہیں، اور معصوم شہری، بالخصوص بچے اور خواتین، وحشیانہ بمباری اور فوجی کارروائیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
قومی اسمبلی میں پیش کی گئی یہ قرارداد تمام سیاسی جماعتوں کی مشترکہ آواز تھی — ایک ایسا نکتہ جہاں سیاست سے بالاتر ہو کر انسانیت کو ترجیح دی گئی۔ یہ امر اس بات کی علامت ہے کہ جب مظلوموں کا ساتھ دینے کی بات ہو تو پاکستان کی پارلیمان یک زبان ہو جاتی ہے۔
قرارداد میں نہ صرف غزہ پر ہونے والی حالیہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی بلکہ اقوامِ متحدہ، او آئی سی (OIC)، اور دیگر عالمی اداروں سے فوری مداخلت کا مطالبہ بھی کیا گیا تاکہ خونریزی رکی جا سکے اور فلسطینیوں کو ان کا حقِ خودارادیت دیا جا سکے۔ پاکستان نے اس قرارداد کے ذریعے واضح پیغام دیا کہ وہ ہر فورم پر فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کے جائز حقوق کی حمایت جاری رکھے گا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان نے فلسطین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا ہو۔ ماضی میں بھی پاکستان نے ہر عالمی پلیٹ فارم پر فلسطینی عوام کی حمایت کی ہے، چاہے وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی ہو یا او آئی سی کا اجلاس۔ مگر اس بار قرارداد کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اسرائیلی جارحیت کی شدت اور نوعیت نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی پاکستانی عوام نے قرارداد کی منظوری کو سراہا، اور ٹویٹر پر #FreePalestine، #GazaUnderAttack، اور #PakistanSupportsPalestine جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرتے رہے۔ عوامی سطح پر بھی کئی شہروں میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالی گئیں اور دعائیہ اجتماعات منعقد ہوئے۔
اس قرارداد نے دنیا کو یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ مسئلہ فلسطین صرف عرب دنیا کا یا مسلم امہ کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ معصوم جانوں کا قتل، ہسپتالوں اور اسکولوں پر بمباری، اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی — یہ سب کچھ عالمی برادری کی خاموشی کا ماتم کر رہا ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کی یہ قرارداد ایک آئینی، اخلاقی اور سفارتی قدم ہے، جو اس ظلم کے خلاف ایک اجتماعی مزاحمت کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اب یہ عالمی برادری، خصوصاً طاقتور ممالک اور اداروں پر منحصر ہے کہ وہ صرف “تشویش” کے بیانات جاری کرنے کی بجائے، کوئی ٹھوس عملی اقدام کریں تاکہ غزہ میں بہتا ہوا خون رُک سکے۔