“پاکستان کی نگرانی کا نیا فارمولا: چینی، یورپی اور امریکی کمپنیوں کی مدد سے ’ہم سب کی سنسرشپ‘!”

پاکستان کا نگرانی نظام: ‘مقامی خودمختاری’ یا ‘عالمی نگرانی کا عالمی اتحاد’؟
ایمنٹسی کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا نگرانی اور سنسرشپ کا نظام محض ملکی سطح پر بنایا ہوا کوئی آلہ نہیں، بلکہ درحقیقت یہ ایک بین الاقوامی تعاون کا نتیجہ ہے۔ یعنی پاکستان کی ‘آزاد میڈیا’ اور ‘آزاد رائے’ کی باتیں زیادہ تر صرف ایک خوبصورت جعلی فریم ورک ہیں، جب کہ اصل میں اس نگرانی کے پیچھے بڑے بڑے چینی، یورپی اور شمالی امریکی ٹیکنالوجی کے ہاتھ ہیں۔
یہ حقیقت ہمیں ایک حیرت انگیز مگر افسوسناک سچائی سے روبرو کرتی ہے کہ
پاکستان کا نگرانی نظام دراصل ایک عالمی نگرانی نیٹ ورک کا حصہ ہے۔
🌐 عالمی نگرانی کی شرائط:
-
چینی کمپنیاں: سخت سنسرشپ اور حساس مواد کی فوری شناخت اور بلاکنگ میں ماہر ہیں۔ وہ ان ٹولز کی فراہمی کرتی ہیں جن سے حکومت پاکستان سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز پر ‘ناقابل قبول’ مواد کو روکتی ہے۔
-
یورپی الگوردمز: یورپ میں ڈیٹا پروٹیکشن قوانین تو سخت ہیں، لیکن وہی کمپنیاں اب پاکستان جیسے ملک کے نگرانی نظام کو ایسے الگوردمز دیتی ہیں جو تنقیدی آوازوں کو الگ اور چھپانے میں مدد کرتے ہیں۔
-
شمالی امریکی کمپنیز: جو ڈیٹا مانیٹرنگ، تجزیہ اور ڈیجیٹل سرویلنس کا ایک عالمی نیٹ ورک چلاتی ہیں، وہ پاکستان کو ایسے ٹولز فراہم کرتی ہیں جن کے ذریعے بڑے پیمانے پر نگرانی کی جاسکتی ہے۔
🤖 سوشل میڈیا سنسرشپ: آزادی رائے کی مٹھی میں زہر
ایمنٹسی کی رپورٹ کہتی ہے کہ یہ نگرانی کا نظام سوشل میڈیا سے تنقیدی مواد اور اختلافی آوازوں کو مٹانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بات ایسے ہی ہے جیسے
’آزادی رائے‘ کا پرچم تھامے ہوئے، آوازیں دبائی جا رہی ہوں۔
ہر وہ پوسٹ، ویڈیو یا تبصرہ جو حکومت یا اس کے حمایتیوں کو ناپسند آئے، فوراً ڈیلیٹ یا سنسر کیا جاتا ہے۔
یہاں صرف ایک ہی سوال باقی رہ جاتا ہے:
کیا اس نگرانی نظام میں عام شہری کا کوئی حصہ ہے، یا وہ صرف ایک ناظر ہے جو “آزاد میڈیا” کا ڈرامہ دیکھ رہا ہے؟
پاکستان میں ‘گلوبل کنٹرول’ کی حقیقت
یہ نگرانی نظام یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں اصل ‘قابض قوت’ وہ نہیں جو عوام کو بتائی جاتی ہے، بلکہ وہ عالمی طاقتیں ہیں جو جدید ٹیکنالوجی فراہم کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ:
-
آزادی رائے کے دعوے بس ایک گیم ہیں،
-
حکومت کا کام صرف وہی کرنا ہے جو ‘عالمی نگرانی نیٹ ورک’ چاہتا ہے،
-
اور عوام کی آواز کو کنٹرول کرنا، سینسر کرنا، مٹانا اس نظام کا بنیادی جز ہے۔
اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی منظرنامہ
ایمنٹسی جیسی تنظیمیں اس نگرانی نظام کی تنقید کر رہی ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ
جہاں نگرانی کا نظام عالمی سطح پر ایک نیٹ ورک بن چکا ہے، وہاں صرف مذمت یا رپورٹز کا اثر کم ہوتا جا رہا ہے۔
عالمی طاقتیں اپنی ‘سیکیورٹی’ کے نام پر ایسی تکنیکیں فروغ دے رہی ہیں جو
-
ذاتی پرائیویسی کو تباہ کرتی ہیں،
-
تنقید کو دباتی ہیں،
-
اور ہر قوم کی خودمختاری کو مشروط بنا دیتی ہیں۔
پاکستان کی ‘آزادی’ صرف لفظوں میں
پاکستان کا یہ نگرانی نظام ہمیں ایک تلخ حقیقت بتاتا ہے:
یہ نظام نہ صرف حکومتی نگرانی ہے بلکہ عالمی طاقتوں کی مشترکہ نگرانی کا حصہ بھی ہے۔
اور جب تک یہ ٹیکنالوجی بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں رہے گی،
پاکستانی عوام کی آزادی رائے محض ایک خواب ہی رہے گی۔
آج کے دور میں “آزاد میڈیا” کا مطلب ہے:
’وہ میڈیا جو عالمی نگرانی نیٹ ورک کی اجازت سے چل رہا ہو۔‘
چنانچہ جب بھی کوئی پاکستانی حکومتی شخص آزادی رائے کی بات کرے،
یاد رکھیے گا کہ وہ بات صرف ایک “عالمی کنٹرول شدہ آزادی” ہے، جسے چینی، یورپی اور امریکی ہاتھوں نے ‘ڈیزائن’ کیا ہے۔