“پنجاب حکومت نے مزدوروں کے لیے بڑی خوشخبری سنا دی — کم از کم ماہانہ اُجرت 40 ہزار روپے مقرر، محنت کا صلہ اب مزید بہتر ملے گا!”

“پنجاب کے مزدوروں کی زندگی میں آسانی کا دروازہ کھل گیا — حکومت نے کم از کم اُجرت 40 ہزار روپے کر دی، اب محنت کا معاوضہ بہتر ہوگا اور عزت کے ساتھ جینا ممکن ہوگا۔”
🔷 سیاق و سباق: بڑھتی مہنگائی اور اجرت کا بحران
2024–25 میں پاکستان بھر میں مہنگائی کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ضروریاتِ زندگی — جیسے آٹا، چینی، دودھ، گوشت، کرایہ، بجلی اور گیس — کی قیمتیں عام مزدور کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی تھیں۔
ایسے میں، پنجاب میں لاکھوں مزدور جو مختلف فیکٹریوں، کارخانوں، دکانوں اور تعمیراتی منصوبوں میں کام کرتے ہیں، ان کی سابقہ اجرت 32,000 سے 37,000 روپے ماہانہ تھی، جو کہ موجودہ مہنگائی کے مطابق ناکافی تھی۔
🔷 نیا فیصلہ — کیا ہوا؟
پنجاب حکومت نے مالی سال 2025–26 کے صوبائی بجٹ میں اعلان کیا کہ:
“یکم جولائی 2025 سے تمام غیر ہنرمند مزدوروں کے لیے کم از کم ماہانہ اجرت 40,000 روپے ہوگی۔”
اس فیصلے کا مقصد مزدور طبقے کو معاشی تحفظ فراہم کرنا، غربت میں کمی لانا اور مہنگائی کے بوجھ کو کم کرنا ہے۔
🔷 اجرت کا حساب — روزانہ اور فی گھنٹہ کی تفصیل
اگرچہ سرکاری نوٹیفکیشن میں فی گھنٹہ اجرت واضح طور پر بیان نہیں کی گئی، لیکن عام طور پر یومیہ 8 گھنٹے کام اور ہفتہ میں 6 دن کے حساب سے اجرت کی تفصیل کچھ یوں بنتی ہے:
معیار | مقدار |
---|---|
ماہانہ اجرت | 40,000 روپے |
یومیہ اجرت (26 دن) | 1,538.46 روپے |
فی گھنٹہ اجرت | تقریباً 192.30 روپے (8 گھنٹے کی بنیاد پر) |
🔸 یاد رہے کہ یہ فی گھنٹہ حساب غیر رسمی ہے اور سرکاری طور پر الگ فی گھنٹہ ریٹ جاری نہیں کیا گیا۔
🔷 سرکاری نوٹیفکیشن کی اہم نکات
-
یہ اجرت صرف غیر ہنرمند (Unskilled) مزدوروں کے لیے ہے
-
اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اس سے کم تنخواہ نہ دیں
-
تمام لیبر افسران، انسپکٹرز اور متعلقہ حکام کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ معائنہ کریں
-
خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ اور قانونی کارروائی ہوگی
-
مزدوروں کو تنخواہ رسید (Pay Slip) دینا لازمی قرار دیا گیا ہے
🔷 عملدرآمد کے چیلنجز
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، اجرت کے تعین اور اس پر عملدرآمد ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اس فیصلے کے باوجود درج ذیل مسائل سامنے آ سکتے ہیں:
-
غیر رسمی ادارے: چھوٹے کاروبار، ورکشاپس، اور دکانیں اجرت قوانین پر عمل نہیں کرتیں
-
لیبر انسپکشن نظام کی کمزوری: بدعنوانی، نااہلی یا سیاسی دباؤ کی وجہ سے انسپکٹرز اکثر کارروائی نہیں کرتے
-
مزدوروں کی بے خبری: کئی مزدوروں کو اپنے قانونی حقوق کا علم ہی نہیں ہوتا
-
معاشی دباؤ: کچھ صنعت کار اور مالکان مہنگائی کا بوجھ خود برداشت نہ کر پانے کی شکایت کرتے ہیں
🔷 ردعمل — مزدور، مالکان اور سماج
✅ مزدور طبقہ:
اکثریت نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب کم از کم روزمرہ کی بنیادی ضروریات پوری ہو سکیں گی، خاص طور پر کرایہ، بچوں کی فیس، راشن اور دوا کے اخراجات۔
✅ سول سوسائٹی اور مزدور تنظیمیں:
ان تنظیموں نے نہ صرف فیصلے کی تعریف کی بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا کہ:
-
اجرت پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے
-
ہنرمند مزدوروں کے لیے الگ اسکیل متعارف کرایا جائے
-
خواتین ورکرز کی اجرت اور تحفظات پر بھی توجہ دی جائے
❗ نجی ادارے اور صنعت کار:
کچھ صنعت کاروں نے تشویش ظاہر کی کہ اجرت میں اچانک اضافہ چھوٹے کاروباروں کے لیے مالی دباؤ کا باعث بنے گا۔ حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ:
-
انہیں ٹیکس میں چھوٹ دی جائے
-
سبسڈی یا قرضہ اسکیمیں متعارف کرائی جائیں
🔷 دیگر صوبوں سے موازنہ
صوبہ | کم از کم ماہانہ اجرت | فی گھنٹہ (اندازاً) |
---|---|---|
پنجاب | 40,000 روپے | 192 روپے |
سندھ | 40,000 سے 51,745 روپے (درجات کے لحاظ سے) | 192–230 روپے |
خیبرپختونخوا | 36,000 روپے | ~170 روپے |
بلوچستان | 34,000 روپے | ~160 روپے |
پنجاب اور سندھ اس وقت مزدوروں کو سب سے زیادہ اجرت دے رہے ہیں، جب کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اجرتیں اب بھی کم ہیں۔
🔷 قانونی حیثیت — مزدور کا حق
یہ اجرت قانونی طور پر واجب الادا ہے۔ کوئی بھی ادارہ اگر اس سے کم تنخواہ دیتا ہے تو مزدور درج ذیل اقدامات کر سکتا ہے:
-
لیبر کورٹ یا لیبر ڈیپارٹمنٹ میں شکایت درج کروائے
-
اپنی تنخواہ کی سلِپ یا دستاویزی ثبوت محفوظ رکھے
-
مزدور تنظیموں سے رابطہ کرے
-
ہیومن رائٹس کمیشن یا سوشل ورکرز سے مدد لے
🔷 آگے کا راستہ — حکومت کے لیے تجاویز
-
اجرت پر عملدرآمد کے لیے ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم
-
کم از کم اجرت کی سالانہ نظرثانی
-
تمام مزدوروں کا رجسٹریشن سسٹم
-
خواتین مزدوروں کے لیے محفوظ کام کی جگہیں
-
مزدوروں کو قانونی تربیت اور آگاہی مہم
پنجاب حکومت کا کم از کم اجرت 40,000 روپے مقرر کرنے کا فیصلہ یقینی طور پر ایک تاریخی قدم ہے، جو مزدور طبقے کے لیے امید کی کرن بن سکتا ہے۔ تاہم، اس فیصلے کا اصل فائدہ تبھی ممکن ہے جب اس پر مکمل اور مؤثر عملدرآمد کروایا جائے۔
محنت کش طبقہ کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے، اور جب تک ان کو عزت، تحفظ اور مناسب اجرت نہیں ملتی، ترقی محض ایک خواب ہی رہے گی۔