“کراچی میں بارش ہو یا تعلیم، دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے – کیا یہی ہے سندھ حکومت کی کارکردگی؟”

کراچی میں بارش ہو یا تعلیم، دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے – کیا یہی ہے سندھ حکومت کی کارکردگی؟
کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر، معاشی حب، تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز، اور لاکھوں خواب دیکھنے والے نوجوانوں کا شہر ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں تعلیم اور بارش ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ تھوڑی سی بارش، اور اسکولز، کالجز بند! گویا تعلیم، حکومتِ سندھ کے نزدیک، ایک غیر ضروری لگژری ہے، جو صرف خشک موسموں میں دی جا سکتی ہے۔
حکومت کی “پیشگی منصوبہ بندی” صرف نوٹیفکیشن تک محدود؟
جب بارش کی پیش گوئی ہوتی ہے، تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں فوری اقدامات کیے جاتے ہیں۔ ڈرینیج سسٹم کی صفائی، سڑکوں کی مرمت، بجلی کی لائنز کو محفوظ بنانا، اور اسکولوں کی بلڈنگز کا جائزہ – یہ سب وہاں کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
مگر کراچی میں؟ یہاں “پیشگی منصوبہ بندی” صرف سوشل میڈیا پر ایک نوٹیفکیشن تک محدود ہوتی ہے:
“بارش کے پیش نظر کل تعلیمی ادارے بند رہیں گے”
اور بس!
یہ ایسا لگتا ہے جیسے حکومت کہہ رہی ہو:
“ہم کچھ نہیں کر سکتے، آپ خود ہی بچاؤ!”
شہری سہولیات کی تباہی: صرف بارش کا قصور؟
بارش تو صرف ایک قدرتی عمل ہے۔ دنیا بھر میں ہوتی ہے۔ دہلی، کولکتہ، جکارتہ، استنبول، یا بنکاک — سب جگہ بارشیں ہوتی ہیں۔ لیکن کہیں پر بھی بارش کے نام پر پورا تعلیمی نظام بند نہیں کیا جاتا۔ وہاں حکومتیں اپنے شہری انفرااسٹرکچر کو اتنا مضبوط بناتی ہیں کہ بارش زندگی کے نظام کو نہیں روکتی، بلکہ صرف ایک موسمی تبدیلی بن کر گزر جاتی ہے۔
کراچی میں سڑکیں پانی میں ڈوب جاتی ہیں، سیوریج اُبل پڑتی ہے، بجلی کے پولز کرنٹ دینے لگتے ہیں، اور کہیں کہیں تو اسکولز کی دیواریں بھی گر جاتی ہیں۔ یہ سب اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ سندھ حکومت نے دہائیوں سے شہری ترقی کے نام پر صرف زبانی جمع خرچ کیا ہے، عملی طور پر کچھ بھی نہیں۔
تعلیم کا نقصان: کون ذمہ دار ہے؟
تعلیم پہلے ہی پاکستان میں کمزور ہے۔ سرکاری اسکولوں کی حالت خراب، اساتذہ کی کمی، اور نصاب پرانی روشنی میں پسا ہوا۔ اس پر مزید بارش کے نام پر اسکولوں کی بار بار تعطیلات – یہ سب طلبہ کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
-
ایک دن کی چھٹی = لاکھوں بچوں کی تعلیم کا نقصان
-
سلیبس پیچھے رہ جاتا ہے
-
والدین اور اساتذہ پریشان
-
آن لائن کلاسز کا کوئی متبادل سسٹم موجود نہیں
-
امتحانات اور سالانہ ٹارگٹس متاثر
کیا حکومت نے کبھی اس نقصان کا کوئی متبادل سوچا؟ کیا کبھی کسی وزیر تعلیم نے یہ سوال اٹھایا کہ آخر کب تک بارش کے ساتھ تعلیم کو قربان کیا جاتا رہے گا؟
پبلک اور پرائیویٹ اسکولز میں تفریق: طبقاتی تعلیمی نظام واضح
یہاں ایک اور افسوسناک پہلو بھی ہے:
پرائیویٹ اسکولز کے طلبہ تو کسی نہ کسی طرح گھر پر پڑھ لیتے ہیں، لیکن سرکاری اسکولز کے بچوں کے لیے تو چھٹی کا مطلب “تعلیم بند، کھیل شروع” ہوتا ہے۔
غریب طبقہ، جو پہلے ہی تعلیمی میدان میں پسماندہ ہے، مزید پیچھے چلا جاتا ہے۔ یہ طبقاتی فرق مسلسل بڑھتا جا رہا ہے، اور حکومت کی خاموشی اس تفریق کو مزید مضبوط کر رہی ہے۔
کیا حل ہے؟
-
ایمرجنسی ڈرینیج پلان: کراچی کے نالوں اور سیوریج کو سال میں دو بار مکمل صاف کیا جائے۔
-
اسکول انفرااسٹرکچر کی بہتری: اسکول بلڈنگز کو بارش کے پانی سے محفوظ بنایا جائے۔
-
ڈیجیٹل متبادل: اگر اسکول بند بھی ہوں، تو آن لائن کلاسز یا ریکارڈڈ لیکچرز کا سسٹم ہو۔
-
شہری حکومت کو بااختیار بنائیں: بلدیاتی نمائندے ہی مقامی مسائل کو بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں۔
-
احتساب کا نظام: تعلیم کے نقصان پر حکومت سے سوال ہو، میڈیا پر بات ہو، عوام جواب مانگے۔
آخری سوال: کیا تعلیم واقعی حکومت کی ترجیح ہے؟
اگر صرف بارش کی دو بوندیں پورے تعلیمی نظام کو مفلوج کر دیتی ہیں، تو یہ ہمارے سسٹم پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ سندھ حکومت کب تک بارش کو ڈھال بنا کر اپنی نااہلی چھپاتی رہے گی؟ اور عوام کب تک خاموش رہیں گے؟
تعلیم ایک قوم کا مستقبل ہے، اسے موسمی حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا کسی بھی باشعور معاشرے کی علامت نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم صرف بارش نہیں، بلکہ حکومتی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائیں۔
““کراچی میں بارش ہو یا تعلیم، دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے – کیا یہی ہے سندھ حکومت کی کارکردگی؟”” ایک تبصرہ