گوجرانوالہ: فلائی اوورز کی دوڑ اور تعلیمی منصوبوں کی نظر انداز ہوتی حقیقت

گوجرانوالہ، جو پنجاب کا صنعتی دل اور کاروباری سرگرمیوں کا ایک بڑا مرکز ہے، آج کل ترقیاتی منصوبوں کے ایک عجیب توازن کا شکار ہے۔ شہر کی شاہراہوں پر تیزی سے اُگتے فلائی اوورز کو جہاں شہری سہولتوں کے لیے ایک مثبت قدم سمجھا جا رہا ہے، وہیں تعلیمی شعبہ اس دوڑ میں پیچھے رہتا دکھائی دیتا ہے۔

حال ہی میں گوجرانوالہ میں تیسرے فلائی اوور کی تعمیر مکمل ہوئی ہے، جس کے بعد شہر میں تعمیر ہونے والے تینوں فلائی اوورز پر مجموعی طور پر 15 ارب روپے سے زیادہ کی لاگت آ چکی ہے۔ یہ فلائی اوورز یقیناً شہریوں کی روزمرہ آمدورفت میں آسانی پیدا کر رہے ہیں، لیکن دوسری جانب ایک اہم سوال بھی جنم لے رہا ہے: کیا یہی ترجیح ہونی چاہیے تھی؟

شہر میں ایک سرکاری یونیورسٹی کا منصوبہ برسوں سے زیرِ تکمیل ہے، جس کے لیے ابتدائی تخمینہ صرف 5 ارب روپے لگایا گیا تھا۔ تاہم، اس تعلیمی منصوبے کو وہ رفتار اور توجہ نہیں مل سکی جو کہ شہر کے فلائی اوورز کو نصیب ہوئی۔ فنڈز کی مسلسل کمی اور منصوبہ بندی میں سستی کی وجہ سے یونیورسٹی کی تعمیر نہ صرف تاخیر کا شکار ہے بلکہ اس کا مقصد بھی دھندلا ہوتا جا رہا ہے۔

یہ صورت حال ہمارے معاشرتی اور حکومتی ترجیحات کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر ایک شہر میں سڑکوں پر سہولت فراہم کرنے کے لیے اربوں خرچ کیے جا سکتے ہیں تو اسی شہر کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کی سہولت فراہم کرنے کے لیے محض 5 ارب کی رقم جمع کرنا کیوں مشکل بن جاتا ہے؟ کیا ہم بحیثیت قوم ترقی کو صرف سیمنٹ، سریے اور اسفالٹ تک محدود سمجھتے ہیں؟

ترقی کے جدید معیارات میں انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ تعلیمی ترقی کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ وہ قومیں جو یونیورسٹیز کو سرمایہ کاری کا بہترین ذریعہ سمجھتی ہیں، آج دنیا میں علمی و معاشی میدان میں سبقت لے جا چکی ہیں۔ گوجرانوالہ جیسے شہر جہاں نوجوانوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے، وہاں ایک مکمل اور فعال یونیورسٹی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

یہ ضروری ہے کہ ہم ترقیاتی منصوبوں کی منصوبہ بندی میں توازن پیدا کریں۔ فلائی اوورز بنانا غلط نہیں، لیکن اگر ہم تعلیم جیسے بنیادی ستون کو نظر انداز کریں گے تو بلند و بالا پلوں کے نیچے ایک پسماندہ سوچ پنپتی رہے گی، جو نہ صرف ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کے مستقبل کے لیے بھی خطرہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں