“یہ ہے خالص صحافت؟” — جویریہ صدیق کا کڑوا سچ.

دنیا بھر میں صحافت کو معاشرے کی آنکھ، کان اور زبان سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب آنکھ اندھی ہو جائے، کان بہرے، اور زبان صرف خوشامد میں مصروف ہو — تو وہ صحافت نہیں، کٹھ پتلی تماشہ بن جاتی ہے۔

پاکستانی صحافی و لکھاری جویریہ صدیق نے اپنے ایک حالیہ بیان میں صحافت کے اس افسوسناک رخ کو بےنقاب کرتے ہوئے کہا:

“پھر ایک صحافتی طبقہ جو صبح سے خوشامد پر شروع ہوتا ہے، رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ آزاد کی مدح سرائی کرتا ہے، قید پر تنقید کرتا ہے۔ نا مہنگائی پر کچھ بولتا ہے، نا جمہوریت کی زبوں حالی اور نا انصافی پر اس کا قلم اٹھتا ہے۔ اتنی خالص صحافت دیکھی آپ نے؟”

🧱 خوشامد اور سچائی کا فاصلہ
اس بیان میں ایک گہرا تضاد چھپا ہے — وہ صحافی جو خود کو “آزاد” کہتے ہیں، وہی جمہوریت، انسانی حقوق، اور عوامی مسائل پر خاموش ہیں۔

کیا مہنگائی صحافتی ایجنڈے میں شامل نہیں؟

کیا انسانی آزادیوں کی پامالی پر قلم نہیں اٹھنا چاہیے؟

کیا جمہوریت کی تباہی صحافت کا موضوع نہیں ہونا چاہیے؟

📰 قلم بک گیا یا زبان بند ہے؟
جویریہ صدیق کا اشارہ واضح ہے کہ ایک بڑا طبقہ ایسے صحافیوں کا ہے جو صرف طاقتوروں کی مدح سرائی میں مصروف ہے۔

قید کی مخالفت کرنے والے، آزادوں کی مدح سرائی کرتے ہیں

مہنگائی، غربت، اور ناانصافی پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں

صحافت کا مطلب صرف ریٹنگ، اشتہارات اور تعلقات بن چکا ہے

🧭 صحافت کا اصل مقام؟
صحافت کبھی سچ کا ساتھ دینے والی، مظلوم کی آواز بننے والی، اور طاقت کو بےنقاب کرنے والی ہوا کرتی تھی۔
لیکن آج کے “خالص صحافی” شاید سچ سے زیادہ تنخواہ اور تعلقات کے محتاج ہیں۔

کیا یہ وہ صحافت ہے جسے آئین نے آزادیِ اظہار کا حق دیا؟
کیا یہ وہی شعبہ ہے جس کے لوگ سچ کے لیے جان دینے کے دعوے کرتے ہیں؟
جویریہ صدیق کی تلخ باتوں میں تلخ حقیقتیں چھپی ہیں۔
یہ وقت ہے کہ صحافی خود سے سوال کریں:

ہم کس کے لیے لکھتے ہیں؟

عوام کی خدمت کے لیے یا اقتدار کی خوشنودی کے لیے؟

صحافت بچانی ہے یا صرف تنخواہ؟

کیونکہ سچ یہ ہے — قلم جب بک جائے، تو صحافت مر جاتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں