🇺🇸 برنی سینڈرز کا دوٹوک پیغام: “نیتن یاہو امریکہ کا صدر نہیں ہے!”

امریکی سیاست کے معروف سینیٹر برنی سینڈرز نے مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی پر اپنی روایت کے مطابق جرأتمندانہ مؤقف اختیار کیا ہے۔ ان کے تازہ بیان نے نہ صرف اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو بلکہ امریکی حکومت کو بھی ایک واضح پیغام دے دیا ہے:
“نیتن یاہو امریکہ کا صدر نہیں ہے۔ اسے امریکی خارجہ اور فوجی پالیسی کا تعین نہیں کرنا چاہیے۔”
یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی شدید تر ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل کی ممکنہ عسکری مہمات میں امریکہ کے کردار پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
📢 سینڈرز کا مکمل مؤقف:
برنی سینڈرز نے اپنی گفتگو میں واضح کیا کہ:
اسرائیل اگر ایران سے جنگ کرنا چاہتا ہے تو یہ اسرائیل کی اپنی جنگ ہے
امریکہ کو کسی صورت اس میں شامل نہیں ہونا چاہیے
امریکی پالیسی کا تعین واشنگٹن میں منتخب نمائندے کریں گے، نہ کہ تل ابیب میں بیٹھا کوئی رہنما
یہ بیان نہ صرف امریکی مداخلت کے خلاف ہے، بلکہ یہ امریکی عوام کے جذبات کی ترجمانی بھی کرتا ہے، جو ایک اور مہنگی اور خطرناک جنگ کے خلاف ہیں۔
🌍 عالمی اور علاقائی تناظر:
برنی سینڈرز ہمیشہ سے فلسطینیوں کے حقوق، انسانی ہمدردی، اور عالمی امن کے حامی رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
کچھ اہم نکات:
اسرائیل کی حالیہ جارحانہ پالیسیوں پر عالمی سطح پر تنقید بڑھ رہی ہے
ایران اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست تصادم کی صورت میں امریکہ کی مداخلت پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتی ہے
برنی سینڈرز جیسے رہنما سفارتی حل کو جنگ پر ترجیح دیتے ہیں
🇮🇱 امریکہ-اسرائیل تعلقات پر سوالیہ نشان:
یہ پہلا موقع نہیں کہ برنی سینڈرز نے اسرائیل پر تنقید کی ہو، مگر اس بار ان کے الفاظ کہیں زیادہ سخت اور دوٹوک ہیں۔
کیا یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکہ کے اندر بھی اسرائیلی اثر و رسوخ پر سوالات اٹھنے لگے ہیں؟
سینیٹر برنی سینڈرز کا بیان ایک جرأتمندانہ آواز ہے جو مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی میں امریکہ کے غیرجانبدار اور احتیاط پسندانہ کردار کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ ہر امریکی، ہر قیمت پر اسرائیل کے فیصلوں کا حصہ بننے کو تیار نہیں۔
یہ جنگ اسرائیل کی ہو سکتی ہے، مگر امریکہ کی ہرگز نہیں — اور یہی امریکہ کے عوام کی اصل آواز ہے۔