“یوکرین کے خزانوں پر آنکھیں، مگر رشتے میں دراڑ کیوں؟”

امریکہ اور یوکرین کے درمیان قیمتی معدنیات کا معاہدہ — اور صدر ٹرمپ کی ناراضگی کی اصل کہانی
دنیا ایک نئے جغرافیائی دوراہے پر کھڑی ہے جہاں جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ معدنیات سے بھی لڑی جا رہی ہے۔ ایسے میں یوکرین کی سرزمین امریکہ کے لیے ایک سونے کی کان بنتی جا رہی ہے، کیونکہ یہاں وہ نایاب اور قیمتی معدنیات پائی جاتی ہیں جن پر مستقبل کی ٹیکنالوجی کھڑی ہے۔ امریکہ اور یوکرین کے درمیان 24 اپریل کو ایک اہم معاہدہ ہونے جا رہا ہے جو ان معدنیات کی فراہمی سے متعلق ہے۔ لیکن اس معاہدے کی روشنی میں ایک اور سوال سر اٹھا رہا ہے: صدر ڈونلڈ ٹرمپ یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی سے ناراض کیوں ہیں؟
یہ کوئی عام تجارتی معاہدہ نہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ یوکرین اسے ان معدنیات کی فراہمی پر وہی شرائط دے جو پہلے طے ہو چکی تھیں۔ امریکی وزیر خزانہ نے واضح کر دیا ہے کہ نئی رعایتوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن یوکرینی قیادت کا مؤقف ہے کہ اب ان کا ملک جنگ میں جھلس رہا ہے، معیشت بکھر چکی ہے، اور انہیں ان معدنیات کے بدلے بہتر مالی و صنعتی حصہ داری کی ضرورت ہے۔ یہی وہ موڑ ہے جہاں اختلافات نے جنم لیا ہے۔
صدر ٹرمپ، جو پہلے ہی یوکرین کے ساتھ تعلقات میں محتاط رویہ رکھتے آئے ہیں، اس نئی بحث سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ ان کے نزدیک یوکرین کا مطالبات بڑھانا یا یورپی یونین کے ساتھ اپنی قربت بڑھانا، امریکہ کے مفادات کے خلاف ہے۔ ماضی کی “یوکرین گیٹ” کہانی بھی ان کے ذہن میں تازہ ہو سکتی ہے، جہاں زیلنسکی کے ساتھ ان کی گفتگو نے ایک پورا سیاسی طوفان کھڑا کر دیا تھا۔ اب جب امریکہ ایک بار پھر یوکرین کے ساتھ تجارتی طور پر جُڑنے جا رہا ہے، پرانے زخم پھر سے کھلتے دکھائی دے رہے ہیں۔
یہ معاہدہ بظاہر قیمتی معدنیات کے بارے میں ہے، مگر اصل میں یہ طاقت، اثرورسوخ، اور جیو پولیٹکس کی جنگ ہے۔ اگر دونوں ممالک ایک دوسرے پر بھروسا نہیں کر پاتے، تو یہ ڈیل صرف کاغذوں پر رہے گی، زمینی حقیقت میں نہیں۔ سوال یہ نہیں کہ معاہدہ ہوگا یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ آیا یہ رشتہ اس معاہدے کے بوجھ کو سنبھال بھی پائے گا یا نہیں۔