400 ارب کا عدالتی “انصاف” اب سوالیہ نشان — کیا ملک ریاض کو وعدہ معاف گواہ بنا کر پاکستان کا سب سے بڑا پراجیکٹ قربان کیا جا رہا ہے؟

پاکستان کے عدالتی نظام پر ایک بار پھر سوالات اٹھنے لگے ہیں، جب 4 سال قبل سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کے تمام مقدمات 400 ارب روپے کے معاہدے کے تحت ختم کر دیے تھے۔ یہ ڈیل اُس وقت ملکی تاریخ کا سب سے بڑا عدالتی تصفیہ قرار دی گئی تھی، جس سے ریاست کو بظاہر ایک بڑی مالی رقم ملی، اور بحریہ ٹاؤن کو قانونی تحفظ۔
تاہم اب، ایک بار پھر بحریہ ٹاؤن اور اس کے بانی ملک ریاض کے گرد گھیرا تنگ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، ملک ریاض کو وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف ان کے خلاف پرانے معاملات کھل سکتے ہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن جیسا میگا پراجیکٹ بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
یہ صورتِ حال کیوں متنازعہ ہے؟
عدالتی تضاد اور اعتبار کا بحران:
اگر ایک بار 400 ارب روپے لے کر تمام کیسز ختم کیے جا چکے ہیں، تو اب دوبارہ انہی مقدمات کو کھولنا یا نئے زاویے سے نشانہ بنانا عدالتی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
سیاسی مداخلت کا تاثر:
موجودہ حالات میں یہ تاثر بھی زور پکڑ رہا ہے کہ طاقت کے اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے “بادشاہ سلامت” اس معاملے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، اور ملک ریاض کو وعدہ معاف گواہ بنا کر کسی بڑی سیاسی یا عسکری شخصیت کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔
سرمایہ کاری کے لیے خطرناک پیغام:
اگر ایک بار طے شدہ اور قانونی طور پر بند کیے گئے معاملات کو دوبارہ چھیڑا جاتا ہے، تو یہ بیرونی اور ملکی سرمایہ کاروں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستان میں قانونی تحفظ مستقل نہیں — یہ سرمایہ کاری کے ماحول کے لیے زہر قاتل ہے۔
عوامی مفاد یا ذاتی انتقام؟
سب سے بڑا سوال یہی ہے: کیا ملک ریاض کو گواہ بنا کر “کرپشن کے خلاف جہاد” کیا جا رہا ہے یا محض کسی فرد یا ادارے کو نشانہ بنانے کی تیاری ہے؟
پاکستان کے عدالتی اور سیاسی نظام کو اس وقت سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ اگر قانون کا اطلاق طاقت اور مفاد کے تابع ہوگا، تو نہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال رہ سکے گا، نہ ہی بڑے پراجیکٹس کے مستقبل محفوظ ہوں گے۔