“غزہ میں الجزیرہ کے 5 صحافی شہید — عالمی اور پاکستانی صحافتی برادری کا شدید ردِعمل!”

جب ریاست اپنے شہریوں پر ظلم کرے، تو جمہوریت کا قاتل کون ہے؟
غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری ایک بار پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بنی، جب ایک ٹارگٹڈ حملے میں قطر کے معروف نیوز نیٹ ورک الجزیرہ کے پانچ بہادر صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب وہ ایک تباہ شدہ رہائشی علاقے کی کوریج کر رہے تھے، تاکہ عالمی برادری کو زمینی حقائق اور انسانی المیے سے آگاہ کیا جا سکے۔
ان صحافیوں میں رپورٹر، فوٹو جرنلسٹ، کیمرہ مین اور فیلڈ پروڈیوسر شامل تھے، جنہوں نے انتہائی مشکل حالات میں بھی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری نبھانے سے گریز نہیں کیا۔

صحافیوں کو نشانہ بنانا — عالمی قوانین کی خلاف ورزی
بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین اور جنیوا کنونشنز کے تحت جنگ زدہ علاقوں میں صحافیوں کو خصوصی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ ان کا کردار غیر جانب دار گواہ کا ہوتا ہے جو دنیا کو تنازعے کے حقائق سے آگاہ کرتا ہے۔ تاہم، غزہ میں صحافیوں کے قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات نے اس عالمی اصول کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (RSF) کے مطابق، صرف موجودہ تنازعے میں درجنوں صحافی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد فلسطینی صحافیوں کی ہے۔

عالمی صحافتی اداروں کا شدید ردِعمل
رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (RSF) نے اسے “آزادیٔ صحافت پر براہِ راست حملہ” قرار دیا۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ) نے کہا کہ اسرائیلی افواج کا یہ اقدام عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے، اور اس پر آزاد و شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (IFJ) نے عالمی عدالت انصاف سے اپیل کی کہ وہ اس واقعے کو جنگی جرم کے طور پر لے۔

پاکستانی صحافتی تنظیموں کا ردِعمل
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ)، کراچی پریس کلب اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد سمیت کئی تنظیموں نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگی حالات میں صحافیوں کو نشانہ بنانا نہ صرف پیشہ ورانہ آزادی پر حملہ ہے بلکہ انسانیت کے بنیادی اصولوں کے منافی بھی ہے۔
صحافتی تنظیموں نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس واقعے کو اقوامِ متحدہ میں اٹھائے اور بین الاقوامی برادری پر زور ڈالے کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

انسانی پہلو — خاموش کی گئی آوازیں
ان شہید صحافیوں کی کہانیاں دل دہلا دینے والی ہیں۔ ایک رپورٹر نے آخری لمحے تک لائیو رپورٹنگ جاری رکھی، ایک فوٹو جرنلسٹ نے ملبے تلے دبے بچوں کی تصاویر دنیا کو دکھائیں، جبکہ ایک فیلڈ پروڈیوسر اپنے کیمرے کے ذریعے انسانی بحران کی تصویری شہادت اکٹھی کر رہا تھا۔
یہ سب جانتے تھے کہ وہ خطرے میں ہیں، مگر ان کا یقین تھا کہ دنیا کو سچائی سے آگاہ رکھنا ہی ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

بین الاقوامی ردِعمل کی ضرورت
یہ واقعہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ عالمی برادری کو محض مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔

آزادانہ تحقیقات کا آغاز

جنگی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی

صحافیوں کے لیے عالمی سطح پر محفوظ رسائی اور فیلڈ پروٹیکشن پروٹوکولز کا نفاذ

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں