“ایسا قحط جس میں کھانا موجود ہے، مگر پہنچ سے باہر — اقوام متحدہ نے غزہ کو باضابطہ طور پر قحط زدہ قرار دے دیا!”

غزہ/نیویارک:
اقوام متحدہ نے ایک دل دہلا دینے والے بیان میں غزہ کو باضابطہ طور پر “قحط زدہ علاقہ” قرار دے دیا ہے، جہاں خوراک صرف چند سو میٹر کے فاصلے پر تو ہے، مگر عام شہریوں کے لیے ناقابلِ رسائی بن چکی ہے۔ یہ وہ قحط ہے جو قدرتی نہیں، بلکہ انسانوں کے پیدا کردہ حالات کا نتیجہ ہے۔

اقوام متحدہ کی تشویش:

اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر (UNOCHA) اور دیگر عالمی اداروں نے اپنی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ:

غزہ میں 22 لاکھ سے زائد افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں

بچوں میں سنگین غذائی قلت، جسمانی کمزوری، اور اموات کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے

غذائی سامان سرحد پر موجود ہے، مگر روکنے، تاخیر کرنے یا پابندیاں لگانے کی وجہ سے متاثرین تک نہیں پہنچ رہا

“انسانی بحران کا بدترین منظر”

رپورٹ کے مطابق، یہ قحط قدرتی آفات کا نتیجہ نہیں، بلکہ مسلسل محاصرے، بمباری، اور انسانی امداد کی بندش کا شاخسانہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے کہا:

“ہم ایک ایسے قحط کے گواہ ہیں جہاں بھوک سے بلکنے والے بچوں کے آس پاس خوراک کے ٹرک کھڑے ہیں — مگر سیاسی اور عسکری رکاوٹیں ان کی زندگیوں کو بچانے سے روک رہی ہیں۔”

انسانی امداد کی اپیل:

اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ:

فوری جنگ بندی ہو

محصور علاقوں میں انسانی امداد تک بلا رکاوٹ رسائی دی جائے

خوراک، ادویات اور پانی کی ترسیل ترجیحی بنیادوں پر کی جائے

عالمی ردِعمل:

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے “اجتماعی سزا” قرار دیا

مختلف ممالک اور عالمی رہنماؤں نے صورتحال کو “ناقابلِ قبول انسانی المیہ” کہا

سوشل میڈیا پر #FamineInGaza ٹرینڈ کرنے لگا، جہاں صارفین نے تصاویر، ویڈیوز اور بیانات کے ذریعے عالمی برادری کو بیدار کرنے کی کوشش کی
غزہ کا قحط صرف ایک خطے کا مسئلہ نہیں، یہ پوری انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ جب خوراک موجود ہو، مگر بچے بھوک سے مر رہے ہوں، تو سوال صرف یہ نہیں کہ قحط کیوں ہے — بلکہ یہ بھی ہے کہ ہم سب خاموش کیوں ہیں؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں