قوم معاشی بحران سے گزر رہی ہے، اور حکمران شاہ خرچیاں کر رہے ہیں — مریم نواز کا حالیہ ’تفریحی‘ دورہ زیرِ تنقید

پاکستان کی سیاسی فضا ایک بار پھر تنقید کی لپیٹ میں ہے، اس بار نشانے پر ہیں پنجاب کی چیف منسٹر مریم نواز، جن کا حالیہ غیر ملکی دورہ نہ صرف اس کی غیر ضروری نوعیت بلکہ غیر معمولی سرکاری اخراجات کے سبب عوامی حلقوں میں شدید ردِعمل کا باعث بن رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس دورے کا اصل مقصد سفارتی یا تجارتی نہیں بلکہ تفریح اور ذاتی مصروفیات پر مبنی تھا، جس پر لاکھوں روپے قومی خزانے سے خرچ کیے گئے۔
مزید تنقید اس بات پر ہوئی کہ جب وہ بیرون ملک پہنچیں تو ان کے استقبال کے لیے وہاں کسی اعلیٰ سطح کے حکومتی نمائندے یا سفیر کی بجائے صرف ایک سیکرٹری موجود تھا، جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ میزبان ملک نے اس دورے کو سرکاری یا باضابطہ وقعت نہیں دی۔ ایسے میں سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ جب نہ میزبان نے اس دورے کو سنجیدگی سے لیا، نہ کوئی باضابطہ معاہدہ یا ملاقات طے تھی، تو پھر اس پر عوام کا پیسہ کیوں ضائع کیا گیا؟
ملک اس وقت شدید معاشی بحران، مہنگائی، اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ایسے میں عوام کو یہ جان کر شدید مایوسی ہو رہی ہے کہ حکمران طبقہ بدستور شاہانہ طرز زندگی، فضول سرکاری دوروں، اور پروٹوکول کے کلچر سے باز نہیں آ رہا۔ حکومت کی جانب سے بارہا سادگی، کفایت شعاری اور عوامی پیسوں کے محتاط استعمال کے دعوے کیے گئے، لیکن عملی صورتحال اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایسے دورے صرف عوامی اعتماد کو مجروح کرتے ہیں اور حکومتی ترجیحات پر سنجیدہ سوالات کھڑے کرتے ہیں۔ اگر حکومت واقعی عوامی خدمت اور شفافیت کو ترجیح دیتی ہے تو اسے اس قسم کے غیر ضروری اخراجات کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے اور مکمل وضاحت پیش کرنی چاہیے کہ اس دورے پر قومی خزانے سے کتنا خرچ آیا، اس کا مقصد کیا تھا، اور اس سے قوم کو کیا فائدہ حاصل ہوا۔