گاڑی مالکان ہو جائیں خبردار — ٹوکن ٹیکس میں اضافے کی تیاری مکمل، وفاقی کابینہ نے منظوری دے دی۔

وفاقی حکومت نے گاڑیوں کے مالکان پر ایک اور مالی بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے، کیونکہ وفاقی کابینہ نے ویسٹ پاکستان موٹر وہیکل ایکٹ 1965 میں اہم ترامیم کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت گاڑیوں کے سالانہ ٹوکن ٹیکس میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

یہ فیصلہ کابینہ کے حالیہ اجلاس میں کیا گیا، جس کی صدارت وزیرِاعظم نے کی۔ اجلاس میں وزارتِ مواصلات اور فیڈرل ایکسائز ڈپارٹمنٹ کی سفارشات کا جائزہ لیا گیا، جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ موجودہ معاشی حالات، مہنگائی، اور ٹریفک مینجمنٹ کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے گاڑیوں کی رجسٹریشن اور ٹیکس سسٹم کو “اپ ڈیٹ” کیا جائے گا۔

ویسٹ پاکستان موٹروہیکل ایکٹ میں ترامیم کیا ہیں؟
ویسٹ پاکستان موٹر وہیکل ایکٹ 1965 ایک پرانا قانون ہے جو گاڑیوں کی رجسٹریشن، لائسنسنگ، اور ٹوکن ٹیکس سے متعلق ہے۔ اب حکومت نے اس ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دے کر ان تمام نکات پر نظرِ ثانی کا فیصلہ کیا ہے جو مالیاتی اور تکنیکی طور پر فرسودہ ہو چکے تھے۔

ذرائع کے مطابق، ترامیم کے بعد:

مختلف کیٹیگریز کی گاڑیوں پر سالانہ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جائے گا،

لگژری گاڑیوں، SUV اور ہائبرڈ گاڑیوں پر الگ ٹیکس سلیب متعارف کروایا جائے گا،

موٹر سائیکلوں اور کم قیمت گاڑیوں کے لیے بھی نیا فریم ورک لایا جا رہا ہے،

نادہندہ مالکان کے خلاف جرمانے اور جراثیمہ کی شرح میں بھی اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

عوامی ردعمل:
اس فیصلے پر شہریوں، بالخصوص گاڑی مالکان کی جانب سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کئی افراد کا کہنا ہے کہ پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، اور اب گاڑیوں کے ٹیکس میں اضافے سے متوسط طبقے پر مزید دباؤ پڑے گا۔

دوسری جانب، حکومت کا مؤقف ہے کہ ان ترامیم کا مقصد نہ صرف ریونیو میں اضافہ ہے، بلکہ رجسٹریشن سسٹم کو ڈیجیٹل اور شفاف بنانا بھی ہے۔ ساتھ ہی، غیرقانونی گاڑیوں اور نادہندگان کے خلاف کارروائی کو بھی مؤثر بنایا جائے گا۔

کیا یہ فیصلہ حتمی ہے؟
کابینہ سے منظوری کے بعد اب یہ ترامیم پارلیمانی مراحل سے گزریں گی، اور ممکنہ طور پر متعلقہ کمیٹیوں میں پیش کی جائیں گی۔ اگر پارلیمنٹ نے ان ترامیم کو منظور کر لیا تو یہ باقاعدہ قانون کا حصہ بن جائیں گی، اور پورے ملک میں ان کا اطلاق ہوگا۔

گاڑیوں کے ٹیکس نظام میں مجوزہ تبدیلیاں اگرچہ ریاستی ریونیو کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہیں، لیکن عام شہریوں پر ان کے فوری مالی اثرات پڑیں گے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ حکومت ایک متوازن پالیسی اختیار کرے، جس میں آمدنی اور عوامی سہولت، دونوں کا خیال رکھا جائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں