“اگر کسی دوسرے مسلک کی مجلس سننا جرم ہے، تو پھر ہمیں اپنی تعلیم، اپنے اخلاق، اور اپنے دین پر نظرِثانی کی ضرورت ہے!”

خبر ہے کہ ایک مدرسے کے چھ طلباء کو محض اس لیے نکال دیا گیا کہ وہ امام حسین علیہ السلام کی مجلس میں شریک ہوئے۔ نکالنے کے نوٹس میں لکھا گیا:
“قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے۔”
لیکن کیا سوال کرنے کی جرأت ہے کہ کس شریعت، کس اخلاق اور کس اصول کے تحت امام حسینؑ کا ذکر سننا “سنگین خلاف ورزی” بن گیا؟
🔶 کب تک رواداری کو جرم بنایا جائے گا؟
پاکستان جیسے مذہبی ملک میں جہاں ہر فرقہ، ہر مکتب، ہر فکر کا باضابطہ وجود ہے، وہاں دوسروں کے مقدسات کو سننا، سمجھنا یا احترام دینا جرم بن چکا ہے۔ یہی نہیں، عدم برداشت کو اب ادارہ جاتی شکل دی جا رہی ہے — جہاں صرف “ہمارا مسلک” ہی قابلِ قبول ہے، باقی سب “خطرہ” تصور کیے جاتے ہیں۔
🔶 کیا امام حسینؑ کسی فرقے کا اثاثہ ہیں؟
امام حسینؑ کا پیغام کسی ایک فرقے، مکتب یا جماعت کا نہیں۔ وہ پوری امتِ مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کے رہنما ہیں۔
ان کی مجلس میں جانا، ان کا ذکر سننا، ان کی قربانی سے سبق لینا رہنمائی ہے، بغاوت نہیں۔
پھر سوال یہ ہے:
کیا آپ نے دینِ اسلام کی بنیاد “تفرقے” پر رکھی ہے یا “تقویٰ” پر؟
🔶 اسی عدم برداشت نے لبرل ازم کو تقویت دی
کچھ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ “نوجوان دین سے دور ہو رہے ہیں، لبرل ازم کی طرف جا رہے ہیں۔”
تو ذرا خود سے پوچھیں:
کیا ہم نے دین کو محبت یا نفرت کے ساتھ پیش کیا؟
کیا ہم نے مسجد و مدرسے کو علم کا مرکز بنایا یا فرقہ واریت کا قلعہ؟
کیا ہم نے نوجوانوں کو سوچنے، سننے اور سیکھنے کی آزادی دی یا صرف اندھی تقلید پر مجبور کیا؟
جب دین کے نام پر نوجوانوں کو نکالا جائے گا، دھتکارا جائے گا، تو وہ یا تو بغاوت کریں گے یا روایات سے منہ موڑ لیں گے۔
🔶 اسلام تو رواداری، احترام اور مکالمے کا دین ہے
قرآن کا حکم ہے:
“ادعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ”
(اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ)
اگر قرآن یہ کہتا ہے، تو ہم کس منطق، کس عقل، اور کس ضابطے سے نفرت، محرومی اور تعصب کو فروغ دے رہے ہیں؟
یہ صرف چھ طلباء کی کہانی نہیں — یہ ایک نظام کی بیمار سوچ کا شاخسانہ ہے۔
ایسے میں اگر کوئی نوجوان لبرل ازم، سیکولرزم یا مذہب سے بیزاری کا راستہ چنتا ہے، تو اس کا ذمہ دار وہی نظام ہے جس نے دین کو فرقوں، تعصب، اور سیاسی مفادات میں قید کر دیا ہے۔
امام حسینؑ کو سننا جرم نہیں، بلکہ ان کی خاموشی سے گزر جانا جرم ہے۔