قطر سے 5 ارب ڈالر کا ایل این جی معاہدہ، مگر کھپت نہیں! — وزیراعظم کے دورۂ قطر کے پیچھے “خطرناک حقیقت” سامنے آ گئیط

وزیراعظم شہباز شریف کے ممکنہ دورۂ قطر کی خبریں منظر عام پر آئیں تو سیاسی و تجزیاتی حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔ اب اس دورے کی ممکنہ وجہ سامنے آ چکی ہے — قطر کے ساتھ ایک انتہائی مہنگے اور متنازعہ ایل این جی معاہدے پر عملدرآمد۔

ذرائع کے مطابق، پاکستان نے قطر کے ساتھ 2030 تک کے لیے ایل این جی (Liquefied Natural Gas) کے 177 کارگو شپس خریدنے کا معاہدہ کیا ہے، جن کی مجموعی لاگت تقریباً 5 ارب امریکی ڈالر ہے۔ یہ معاہدہ اس وقت ہوا جب ملک میں توانائی بحران عروج پر تھا، مگر اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔

اہم نکات:

معاہدے کی شرائط ایسی ہیں کہ اگر پاکستان یہ گیس نہ بھی خریدے، تو بھی 5 ارب ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔

موجودہ صورتحال میں ملک میں ایل این جی کی کھپت نمایاں طور پر کم ہو چکی ہے، جس کی بنیادی وجہ مہنگی درآمدی گیس، صنعتی زوال، اور صارفین کی قوتِ خرید میں کمی ہے۔

حیران کن طور پر، مقامی گیس پروڈکشن کو ترجیح دینے کے بجائے بند کر دیا گیا ہے، حالانکہ ملک کے اندر بھی کئی ایسے ذخائر موجود ہیں جو سستی اور دیرپا گیس فراہم کر سکتے ہیں۔

تجزیہ:

یہ معاہدہ نہ صرف اقتصادی طور پر نقصان دہ محسوس ہو رہا ہے بلکہ اس کے پیچھے ممکنہ بدعنوانی، کمیشن، اور منصوبہ بندی کی ناکامی جیسے پہلوؤں کی نشاندہی بھی کر رہا ہے۔ اگر یہ رپورٹ درست ہے، تو یہ پاکستان کے پہلے سے ہی نازک معاشی حالات پر مزید بوجھ ڈال سکتا ہے۔

توانائی کے ماہرین اور سابق حکومتی عہدیداران کے مطابق، ایسے معاہدے “Take or Pay” ماڈلز پر کیے جاتے ہیں، جن میں خریدار کو مال خریدے یا نہ خریدے، رقم ادا کرنا لازمی ہوتا ہے۔ یہی ماڈل پاکستان کے لیے اب گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔

سوالات جو اٹھائے جا رہے ہیں:

جب ملک میں گیس کی کھپت کم ہو رہی ہے تو اتنا بڑا معاہدہ کیوں کیا گیا؟

کیا قطر کے ساتھ ہونے والا یہ معاہدہ شفاف طریقے سے کیا گیا؟

مقامی گیس پروڈکشن کو بند کرنے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟

کیا اس معاہدے سے کسی خاص گروہ کو مالی فائدہ پہنچایا جا رہا ہے؟

اگر یہ تفصیلات درست ہیں تو یہ معاملہ محض معاشی نہیں، بلکہ قومی سلامتی اور شفاف طرزِ حکمرانی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ عوامی نمائندوں، میڈیا اور عدالتوں کو اس معاملے کا فوری نوٹس لینا چاہیے، کیونکہ 5 ارب ڈالر کوئی معمولی رقم نہیں — خاص طور پر ایسے ملک میں جہاں ہر دوسرا شہری مہنگائی، بے روزگاری اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں