“سیلاب آتا ہے تو اس کو لاٹھیاں مارو” — پیپلز پارٹی کے ایم این اے منور تالپور کا متنازع مشورہ

جب عوام پانی میں ڈوب رہے ہوں، تو انہیں بچانے کے بجائے پانی کو لاٹھیاں مارنے کا مشورہ دینا — یہ مذاق ہے یا سنگین بے حسی؟
تفصیلی رپورٹ:
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور رکن قومی اسمبلی، منور تالپور، ایک عوامی اجتماع میں اس وقت شدید تنقید کی زد میں آ گئے جب انہوں نے ممکنہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے عوام کو عجیب و غریب مشورہ دیا۔ ان کے الفاظ کچھ یوں تھے:
“سیلاب آئے تو اس کو لاٹھیاں مارو!”
یہ بیان، جو ابتدا میں شاید طنزیہ یا مذاق کے طور پر دیا گیا، تیزی سے وائرل ہو گیا اور ہر طرف سے تنقید کی زد میں آ گیا۔ سوشل میڈیا پر شہریوں، سیاسی تجزیہ کاروں، اور عام عوام نے اسے غیر سنجیدگی کی انتہا قرار دیا۔
جس وقت عوام کو حقیقت پر مبنی، مؤثر اور سائنسی بنیادوں پر مبنی حل کی ضرورت ہے، اُس وقت ایک منتخب نمائندہ اس قسم کے مشورے دے تو سوالات اٹھنا فطری بات ہے۔
منور تالپور کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب سندھ اور دیگر جنوبی علاقوں میں مون سون کی شدید بارشوں کے نتیجے میں سیلاب کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں پاکستان، خصوصاً سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے علاقے، شدید بارشوں اور ندی نالوں میں طغیانی کے سبب جانی و مالی نقصان اٹھا چکے ہیں۔
ان حالات میں، عوام کا حکومت سے مطالبہ ہوتا ہے کہ نکاسیٔ آب کے نظام کو بہتر بنایا جائے، بندوں اور پشتوں کو مضبوط کیا جائے، ریسکیو ٹیموں کو متحرک رکھا جائے، اور لوگوں کو بروقت محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے۔ مگر منور تالپور جیسے سینئر رہنماؤں کی طرف سے “لاٹھیاں مارنے” جیسے مشورے عوامی جذبات سے کھلواڑ کے مترادف سمجھے جا رہے ہیں۔
عوامی ردِ عمل:
بیان کے فوراً بعد مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک طوفان برپا ہو گیا۔
کچھ لوگوں نے اسے “حکومت کی نااہلی پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش” قرار دیا۔
کچھ نے کہا کہ “اگر لاٹھیاں ہی کافی ہیں، تو پھر حکومت، ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو محکموں کی کیا ضرورت ہے؟”
کئی صارفین نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اب شاید واٹر بورڈ کو لاٹھی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ بارش کے پانی پر حملہ آور ہو جائے۔
سنجیدہ مسئلے پر غیر سنجیدہ رویہ:
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہر سال سینکڑوں لوگ سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں۔ گھروں کی تباہی، فصلوں کا نقصان، بیماریاں، اور اموات جیسے مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں حکومتی نمائندوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، تکنیکی و عملی حل فراہم کریں، اور عوام کو ریلیف فراہم کریں — نہ کہ مذاق بن کر کھڑے ہوں۔
سیاسی ذمہ داری اور احتساب:
منور تالپور جیسے بیانات نہ صرف عوام کی تذلیل کے مترادف ہیں بلکہ یہ سیاسی قیادت کی ناکامی کا عکس بھی پیش کرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں پیپلز پارٹی کی قیادت پر بھی دباؤ ہے کہ وہ اس بیان کی وضاحت کرے یا اپنے نمائندے کو جوابدہ بنائے۔
عوام نے یہ بھی سوال اٹھایا ہے کہ کیا ہمارے سیاستدان قدرتی آفات جیسے حساس موضوعات کو اتنی بے فکری سے لیں گے؟ اور اگر ان کے اپنے علاقوں میں لوگ ڈوب رہے ہوں، تو کیا وہ واقعی لاٹھیوں کے ذریعے پانی کو روکنے کی تلقین کریں گے؟
منور تالپور کا یہ بیان ایک مزاحیہ جملے سے زیادہ خطرناک طرزِ فکر کی عکاسی کرتا ہے، جس میں عوام کے حقیقی مسائل کا ادراک نہیں کیا جا رہا۔
پاکستان کو آج اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ، مؤثر اور عوام دوست قیادت کی ضرورت ہے، جو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے محض بیانات نہیں، بلکہ عملی اقدامات کرے۔