“بچوں کی لٹکتی لاشیں، ملبے تلے چھوٹے کاروبار اور سکھ برادری کا زبردست نقصان—بونیر کو اب ‘آفت زدہ’ قرار دیا جائے!”

. تباہی کا آغاز: بادل پھٹے، پہاڑ بہہ گئے

بونیر میں حالیہ کلاؤڈ برسٹ نے صرف ایک گھنٹے میں غیر معمولی بارش برسا دی، جس سے پہاڑوں سے آنے والے پانی نے گاؤں کے گاؤں بہا دیے۔
بچوں کی لاشیں درختوں سے لٹکی ملیں، لوگ ملبے تلے دبے ہوئے تھے۔

2. چھوٹے کاروبار مکمل تباہ

پیر بابا، بچھنوی اور دیگر علاقوں میں چھوٹے دکانداروں کی دکانیں، پولٹری شاپس، سبزی فروش، اور مقامی بازار مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔
لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی ایک لمحے میں برباد ہو گئی۔

3. سکھ برادری بھی متاثر

مقامی سکھ برادری، جو سالوں سے بونیر میں آباد ہے، خاص طور پر پیر بابا کے علاقے میں، اس سانحے سے شدید متاثر ہوئی۔
ان کے گھروں اور دکانوں کو بہتے پانی نے مکمل طور پر ختم کر دیا۔

4. معاشی بربادی: روزگار ختم، زمینیں برباد

زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت اور مال مویشی تھے، جو سیلاب کے ساتھ بہہ گئے۔
کئی دیہاتوں میں 60 فیصد سے زائد لوگ اپنی آمدنی کا ذریعہ کھو چکے ہیں۔

5. علاقے کو آفت زدہ قرار دینے کا مطالبہ

جے یو آئی (ف) بونیر کے امیر اور مقامی قیادت نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ
بونیر کو فوری طور پر آفت زدہ علاقہ قرار دیا جائے تاکہ امدادی کارروائیاں جلد ممکن بنائی جا سکیں۔

6. حکومتی اقدامات ناکافی؟

صوبائی حکومت نے مالی امداد کے اعلانات کیے ہیں، لیکن متاثرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام بہت دیر سے اور ناکافی ہیں۔
بہت سے علاقوں میں اب بھی پانی کھڑا ہے، بجلی بند ہے، اور خوراک ناپید ہے۔

7. رضاکاروں کا کردار

مقامی رضاکار تنظیمیں، مذہبی جماعتیں اور کچھ سماجی ادارے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
کچھ نے جنازے پڑھائے، کچھ نے کھانے پینے کا سامان تقسیم کیا، اور کچھ اب بھی لاپتہ افراد کو تلاش کر رہے ہیں۔


نتیجہ

بونیر کا یہ انسانی المیہ صرف ایک قدرتی آفت نہیں، بلکہ ایک انتظامی امتحان بھی ہے۔
جن بچوں کی لاشیں درختوں سے لٹکی ملی ہیں، وہ صرف ایک تصویر نہیں بلکہ ایک پیغام ہیں—
کہ اگر فوری، سنجیدہ اور مربوط اقدامات نہ کیے گئے، تو نقصان ناقابلِ تلافی ہو گا۔

بونیر کو آفت زدہ قرار دینا اب مطالبہ نہیں، ضرورت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں