دل دہلا دینے والا سانحہ: سیلابی رکاوٹوں نے تین معصوم زندگیاں نگل لیں

“وزیرآباد میں سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے اشرف پیلس، بوڑے والی میں پناہ، خوراک اور دیگر امدادی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔”

وزیرآباد کی تحصیل سوہدرہ میں ایک المناک واقعہ پیش آیا جہاں ایک حاملہ خاتون کو سیلاب کے باعث بروقت اسپتال نہ پہنچایا جا سکا، اور اس نے مجبوراً گاڑی میں ہی تین بچوں کو جنم دیا۔ بدقسمتی سے، مناسب طبی سہولیات نہ ملنے کے باعث تینوں نومولود بچے دنیا میں آتے ہی دم توڑ گئے۔


سیلابی صورتحال: راستے بند، نقل و حمل مفلوج

گزشتہ کئی روز سے جاری شدید بارشوں کے نتیجے میں سوہدرہ اور اس کے نواحی علاقے شدید متاثر ہیں۔ نشیبی علاقوں میں پانی جمع ہو چکا ہے، اور کئی اہم سڑکیں مکمل طور پر بند ہیں۔ متاثرہ علاقے میں نہ صرف عام شہریوں کی نقل و حرکت محدود ہو گئی ہے بلکہ ایمرجنسی خدمات بھی شدید متاثر ہو چکی ہیں۔


طبی امداد کی عدم دستیابی: ایک دردناک انجام

متاثرہ خاتون کو زچگی کی علامات شروع ہونے پر قریبی اسپتال منتقل کرنے کی کوشش کی گئی، مگر سیلابی پانی نے ہر راستہ بند کر رکھا تھا۔ ایمبولینس بھی پہنچنے میں ناکام رہی، اور گھر والوں کو اپنی ذاتی گاڑی میں ہی خاتون کو لے جانے پر مجبور ہونا پڑا۔ راستے میں ہی خاتون نے تین بچوں کو جنم دیا، مگر طبی امداد کی عدم دستیابی کے باعث وہ تینوں بچے زندگی کی پہلی سانسیں مکمل نہ کر سکے۔


علاقہ مکینوں کا شدید ردعمل اور غم و غصہ

واقعے کے بعد علاقے میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے بروقت امدادی اقدامات نہیں کیے، اور بارہا شکایات کے باوجود نہ نکاسی آب کا بندوبست کیا گیا، نہ ہی کسی ایمرجنسی میڈیکل کیمپ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مکینوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر یہی واقعہ کسی شہری علاقے میں پیش آتا تو کیا ریاست کا ردعمل بھی اتنا ہی سست ہوتا؟


حکومتی مشینری کی ناکامی: ایک سوالیہ نشان

یہ واقعہ انتظامیہ کی تیاریوں اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے نظام پر کئی سوالات اٹھاتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال مون سون کے دوران درجنوں علاقے سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں، مگر اس کے باوجود ہنگامی منصوبہ بندی نہ ہونے کے برابر ہے۔ صحت، ٹرانسپورٹ، اور مواصلات کے نظام کی ناکامی نے ان تین معصوم جانوں کی قربانی لی۔


عوامی مطالبات: فوری ایکشن لیا جائے

علاقہ مکینوں اور سماجی کارکنوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ:

  • سیلاب زدہ علاقوں میں فوری طور پر عارضی طبی مراکز قائم کیے جائیں۔

  • نکاسی آب اور راستوں کی بحالی کو فوری ترجیح دی جائے۔

  • آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جائے۔

  • اس واقعے کی شفاف تحقیقات کی جائیں تاکہ ذمہ داروں کا تعین ہو سکے۔


نتیجہ: ایک ناقابلِ تلافی نقصان

یہ واقعہ نہ صرف ایک خاندان کا ذاتی المیہ ہے، بلکہ ہمارے نظامِ صحت، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، اور حکومتی ترجیحات پر بھی ایک سخت سوالیہ نشان ہے۔ جب تک نچلی سطح پر بنیادی سہولیات کو ترجیح نہیں دی جائے گی، ایسے المناک سانحات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ تین معصوم زندگیاں ہم سے چلی گئیں، مگر ان کی موت ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونی چاہیے — اگر ہم واقعی کچھ بدلنا چاہتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں