تباہی کے سائے: افغانستان میں خوفناک زلزلہ، سیکڑوں جانیں نگل گیا

تباہی کے سائے: افغانستان میں خوفناک زلزلہ، سیکڑوں جانیں نگل گیا
افغانستان میں گزشتہ شب ایک ہولناک زلزلے نے تباہی مچا دی۔ 6.2 شدت کے اس زلزلے نے سینکڑوں قیمتی جانیں نگل لیں اور ہزاروں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ قدرت کی اس بے رحم آزمائش نے ملک کے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا۔
زلزلے کا وقت اور شدت
زلزلہ رات 11 بج کر 47 منٹ پر آیا، جب اکثر لوگ اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے۔ اچانک زمین لرزنے لگی، دیواریں ہلنے لگیں، اور خوف و ہراس پھیل گیا۔ صرف یہی نہیں، 20 منٹ بعد ایک اور شدید جھٹکا محسوس کیا گیا جس نے عوام کی پریشانی کو دوچند کر دیا۔
امریکی جیولوجیکل سروے (USGS) اور مقامی زلزلہ پیما اداروں نے زلزلے کی شدت 6.2 میگنیٹیوڈ ریکارڈ کی ہے۔
جانی و مالی نقصان
ابتدائی رپورٹوں کے مطابق:
-
250 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں
-
500 سے زائد افراد زخمی ہیں
-
درجنوں مکانات مکمل طور پر منہدم ہو گئے
-
متعدد دیہاتوں میں بنیادی سہولیات مفلوج ہو چکی ہیں
زخمیوں میں خواتین، بچے اور بزرگ بھی شامل ہیں۔ بیشتر افراد ملبے تلے دبے ہوئے تھے جنہیں مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت نکالا۔
سب سے زیادہ متاثرہ علاقے
زلزلے کا مرکز ابھی تک مکمل طور پر واضح نہیں ہو سکا، تاہم ابتدائی معلومات کے مطابق سب سے زیادہ تباہی پکتیکا، خوست، اور ننگرہار کے دیہی علاقوں میں دیکھنے میں آئی، جہاں گھروں کی تعمیر روایتی اور کمزور انداز میں کی گئی تھی۔
ریسکیو اور امدادی سرگرمیاں
افغان حکومت نے فوری طور پر ریسکیو اداروں کو متحرک کر دیا ہے، جبکہ متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ مقامی اسپتالوں میں زخمیوں کو لانے کا سلسلہ جاری ہے، لیکن طبی سہولیات ناکافی ہونے کے باعث مشکلات درپیش ہیں۔
ریسکیو ادارے محدود وسائل کے ساتھ ملبہ ہٹانے، زخمیوں کو نکالنے، اور امدادی سامان پہنچانے میں مصروف ہیں۔
حکومتی اقدامات اور عالمی برادری سے اپیل
افغان عبوری حکومت نے عوام سے صبر و تحمل کی اپیل کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں کے لیے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی بین الاقوامی اداروں اور ممالک سے ہنگامی مدد کی درخواست بھی کی گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ، ریڈ کراس، اور دیگر انسانی حقوق کے ادارے صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ممکنہ امداد پر غور کر رہے ہیں۔
عوامی خوف و ہراس اور نفسیاتی اثرات
زلزلے کے بعد عوام میں شدید خوف کی کیفیت طاری ہے۔ سینکڑوں خاندان اپنے گھر چھوڑ کر کھلے میدانوں اور سڑکوں پر رات گزارنے پر مجبور ہو گئے۔
بچوں اور خواتین میں نفسیاتی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، جس کا اثر مستقبل میں طویل عرصے تک باقی رہنے کا خدشہ ہے۔
سوالات اور تشویش: کیا ہم قدرتی آفات کے لیے تیار ہیں؟
یہ سانحہ ایک بار پھر اس اہم سوال کو جنم دیتا ہے کہ:
“کیا افغانستان قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیار ہے؟”
-
ملک میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی کمی
-
طبی سہولیات کا فقدان
-
اور معاشی عدم استحکام
ان سب مسائل نے اس قدرتی آفت کو ایک انسانی المیہ میں تبدیل کر دیا۔
آخر میں: قوم کے لیے دعا اور ہمدردی کا پیغام
ہم اس مشکل وقت میں افغان عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کرتے ہیں۔