جنوب کے ڈوبے کھیت، اور سوشل میڈیا پر خوشیوں کے میلے…؟

“مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ جنوب کے کھیتوں میں پانی ہے، کسان کی کھڑی فصلیں، کھیت ڈوب گئے۔”

یہ صرف زمین کا ڈوبنا نہیں تھا، یہ اُن خوابوں کا ڈوبنا تھا جو کسان نے بونا شروع کیے تھے۔ وہ کھیت صرف فصل کے نہیں تھے، وہ بچوں کی فیس، بوڑھی ماں کی دوا، بیٹی کی شادی، اور روزمرہ کی روٹی کے کھیت تھے۔ اور آج… پانی میں ڈوب کر بے نام ہو چکے ہیں۔


📱 اور دوسری طرف؟

“پورے سوشل میڈیا پر ڈاکٹر نبیہا، پارک ویو، کرائے کا گھر یا اپنا، لوہا پھاڑ ولیمہ… بس یہی چل رہا ہے۔”

یہ ہے ہمارے معاشرے کا المیہ۔

  • انفلوئنسرز ٹرینڈز بیچ رہے ہیں۔

  • میڈیا تفریح کے بخار میں مبتلا ہے۔

  • عوام کی توجہ وہاں ہے جہاں روشنی ہے، نہ کہ وہاں جہاں اندھیرا چیخ رہا ہے۔


💔 سوال صرف یہ نہیں کہ ہم قوم نہیں بنے…

“ہم قوم تو پہلے نہیں تھے، انسان بھی نہیں رہے؟”

یہ جملہ صرف شکوہ نہیں، ایک تھپڑ ہے ہمارے اجتماعی ضمیر پر۔

  • جب ہم جنوبی پنجاب، سندھ، یا بلوچستان کے متاثرین کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں،

  • جب ہم ان کی تکلیف کو اپنی فیڈ میں جگہ نہیں دیتے،

  • جب ہم ان کے بچوں کی بھوک کو اپنی خوشیوں کی تصاویر میں چھپا دیتے ہیں…

تو ہم واقعی “انسان” کہلانے کے قابل رہ جاتے ہیں؟


🕯️ سیلاب اللہ کی آزمائش ہے… مگر ہم؟

  • اللہ کی آزمائش فطرت سے آتی ہے، لیکن ہم جو دوسروں کی آزمائش بنے بیٹھے ہیں؟

  • سیلاب نے فصلیں ڈبوئیں، لیکن ہماری بے حسی نے احساس کو مار ڈالا۔

  • آزمائش میں صرف متاثرین نہیں، ہم سب آزمائے جا رہے ہیں — کہ ہم کیا دیکھتے ہیں، کیا کہتے ہیں، اور کیا کرتے ہیں۔


تو کرنا کیا ہے؟

  1. احساس زندہ کیجیے
    کم از کم دکھ بانٹیے۔ زبان، قلم، کیمرہ، یا مالی مدد سے۔

  2. آواز بنیں
    سوشل میڈیا پر وہ بات کریں جو واقعی کہنے لائق ہے۔ ٹرینڈز کو مت بدلیں، معیار بدلیں۔

  3. یکجہتی دکھائیں
    چاہے وہ کسان ہو یا کسی گاؤں کی بیٹی، ان کی مدد آپ کی انسانیت کی دلیل ہے۔

  4. میڈیا اور معاشرے پر سوال اٹھائیں
    سوال کیجیے، مطالبہ کیجیے کہ ان خبروں کو دکھایا جائے جو واقعی قوم کی بقاء سے جڑی ہیں۔


✍️ آخر میں: ایک سادہ مگر گہرا سوال…

“جب کسی کا کھیت ڈوبتا ہے تو کیا ہم سب کا ضمیر بھی ڈوب جاتا ہے؟”

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں