کراچی کی ملیر ندی میں پانی کی سطح بلند – ترقیاتی منصوبے خطرے میں

“مزید بارشیں نہ ہوئیں تو صورتحال چند گھنٹوں میں معمول پر آجائے گی”: شرجیل میمن
کراچی، جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب ہے، ایک بار پھر شدید بارشوں کے بعد ایک بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ ملیر ندی، جو کہ ایک اہم قدرتی نکاسی آب کا ذریعہ ہے، اس وقت اپنی بلند ترین سطح کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس غیر معمولی صورتِ حال کے باعث نہ صرف قریبی علاقوں میں پانی جمع ہو گیا ہے بلکہ ترقیاتی منصوبوں میں استعمال ہونے والی قیمتی مشینری بھی زیرِ آب آ چکی ہے۔
یہ صرف ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ شہری منصوبہ بندی کی کمزوری، ماحولیاتی غفلت، اور حکومتی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔
ملیر ندی – پس منظر
ملیر ندی کراچی کی دو بڑی قدرتی ندیوں میں سے ایک ہے (دوسری لیاری ندی ہے)۔ یہ ندی بارشوں کے دوران شہر کا پانی سمندر تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ:
-
ندی کے اردگرد غیر قانونی تجاوزات قائم ہو گئیں۔
-
نکاسی آب کا قدرتی نظام برباد کر دیا گیا۔
-
صفائی نہ ہونے کے باعث ملبہ، کچرا، اور تجاوزات ندی کی روانی میں رکاوٹ بن گئے۔
ان تمام عوامل نے آج کی موجودہ بحرانی صورتِ حال کو جنم دیا ہے۔
حالیہ بارشیں اور پانی کی بلند سطح
ستمبر 2025 کے آغاز میں کراچی میں شدید بارشیں ہوئیں، جنہوں نے شہر کے بنیادی ڈھانچے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ان بارشوں کے نتیجے میں:
-
ملیر ندی میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو گئی۔
-
ندی کنارے پر جاری ترقیاتی منصوبوں جیسے کہ پل، انڈرپاس، اور سڑکوں کی تعمیرات شدید متاثر ہوئیں۔
-
بھاری مشینری جیسے کرین، ڈمپر، ایکسکیویٹرز پانی میں ڈوب گئے یا بہہ گئے۔
-
مزدوروں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو گیا، کچھ جگہوں پر انخلا کی نوبت آ گئی۔
ترقیاتی منصوبوں کو نقصان
کراچی میں مختلف انفراسٹرکچر منصوبے جاری تھے، جن کا مقصد شہر میں ٹریفک کی روانی بہتر بنانا، اور پانی کی نکاسی کو بہتر کرنا تھا۔ ان میں شامل تھے:
-
ملیر ایکسپریس وے
-
سندھ حکومت کے برساتی نالوں کی بحالی کے منصوبے
-
انڈرپاس اور اوورہیڈ پل کی تعمیرات
یہ منصوبے پہلے ہی تاخیر کا شکار تھے، اور اب زیرِ آب مشینری و مٹیریل کے باعث مزید مہینوں تک رُکنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس سے:
-
منصوبوں کی لاگت میں اضافہ ہو گا۔
-
کراچی کے شہریوں کو مزید مشکلات کا سامنا ہو گا۔
-
حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھیں گے۔
حکومتی اور انتظامی نااہلی
کراچی میں ہر سال مون سون کے دوران یہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ:
-
پہلے سے پیشگی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟
-
مشینری کو محفوظ مقامات پر منتقل کیوں نہیں کیا گیا؟
-
ندی کے قریب ترقیاتی کام مون سون سے پہلے مکمل کیوں نہ ہوئے؟
یہ سب انتظامی غفلت اور ناقص منصوبہ بندی کو ظاہر کرتا ہے۔ سندھ حکومت، بلدیاتی ادارے، اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان باہمی ہم آہنگی کی شدید کمی ہے۔
ماحولیاتی تناظر
کراچی میں شہری ترقی کا زور اتنا شدید ہے کہ قدرتی ماحولیاتی نظام کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے:
-
ندیوں کے راستے پر تعمیرات نے پانی کے بہاؤ کو روک دیا ہے۔
-
کچرے اور سیوریج کی نکاسی نے ندیوں کو گندا اور بند کر دیا ہے۔
-
ماحولیاتی اثرات کا مطالعہ کیے بغیر منصوبے شروع کیے جاتے ہیں۔
ملیر ندی میں پانی کی بلند سطح ایک قدرتی وارننگ ہے کہ اگر اب بھی ماحولیاتی توازن بحال نہ کیا گیا، تو آئندہ سالوں میں نقصان ناقابلِ تلافی ہو گا۔
شہریوں کو درپیش مسائل
اس تمام صورت حال میں سب سے زیادہ متاثر کراچی کے عام شہری ہوئے ہیں:
-
ندی کے قریبی علاقوں میں پانی گھروں میں داخل ہو گیا ہے۔
-
ٹریفک جام، راستوں کی بندش اور بجلی کی بندش نے زندگی مفلوج کر دی ہے۔
-
بیماریاں، خصوصاً ڈینگی، ملیریا اور جلدی امراض کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
-
کم آمدنی والے مزدور، جو ترقیاتی کاموں سے روزگار حاصل کرتے تھے، بے روزگار ہو گئے ہیں۔
حل کیا ہے؟
فوری اقدامات:
-
ندی کے اردگرد سے مشینری اور ملبہ نکالنے کے لیے ایمرجنسی آپریشن
-
فوج اور رینجرز کی مدد سے ندی کنارے آبادیوں کا انخلا
-
صفائی، نکاسی، اور رکاوٹوں کے فوری خاتمے کے لیے خصوصی یونٹ تشکیل دینا
طویل المدتی حل:
-
ماحولیاتی مطالعہ کے بغیر کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ شروع نہ ہو
-
ملیر اور لیاری ندی کو ریگولیٹ کرنا، ان کے اردگرد گرین زونز بنانا
-
سال بھر کی صفائی کا مستقل نظام متعارف کرانا
-
سیٹلائٹ اور ڈرون کی مدد سے ندیوں کی نگرانی
ملیر ندی کی حالیہ تباہی کراچی کے شہریوں کے لیے ایک اور سانحہ ہے، جو ایک طویل فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ یہ قدرتی آفات نہیں بلکہ انتظامی کوتاہیوں اور انسانی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔ اب وقت ہے کہ حکومتی ادارے محض بیانات اور فوٹو سیشن سے آگے بڑھ کر حقیقی اقدامات کریں، ورنہ آنے والے سالوں میں صورتحال اور بھی بدتر ہو سکتی ہے۔