اسرائیل کا قطر میں حماس مذاکرات کاروں پر حملہ صرف ایک ملک پر نہیں، بلکہ امن کے ہر امکان، ہر میز، اور ہر سفارتی کوشش پر

اسرائیل کا قطر میں حماس مذاکرات کاروں پر حملہ صرف ایک ملک پر نہیں، بلکہ امن کے ہر امکان، ہر میز، اور ہر سفارتی کوشش پر حملہ ہے — اور دنیا کی خاموشی اس جرم میں شراکت دار بن چکی ہے۔
قطر پر اسرائیلی میزائل حملہ: امن عمل کی بنیادیں ہل گئیں
دوحہ، جو ایک عرصے سے مشرقِ وسطیٰ کے پرامن حل کے لیے سفارتی کوششوں کا مرکز رہا ہے، اب خود اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن چکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، اسرائیل نے قطر میں موجود حماس کے سینئر مذاکراتی اہلکاروں کو میزائل حملے میں نشانہ بنایا، جس میں حماس رہنما خلیل الحیہ محفوظ رہے، مگر حملے کی سنگینی سفارتی دنیا کو ہلا کر رکھ گئی ہے۔
یہ حملہ صرف ایک “ٹارگٹ” پر نہیں، بلکہ سفارتی عمل پر حملہ ہے۔ ایک ایسا عمل جس میں قطر نہ صرف میزبان بلکہ ثالثی کا کردار ادا کر رہا تھا۔
ایئر ڈیفنس سسٹم کہاں تھا؟
سب سے اہم اور تکلیف دہ سوال یہ ہے: قطر کے پاس دنیا کے جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹمز ہونے کے باوجود ایک بھی میزائل کیوں نہیں روکا جا سکا؟
قطر نے اپنی فضائی دفاعی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے۔ ان میں شامل ہیں:
Patriot PAC-3 – امریکہ سے حاصل کردہ سسٹم جو بیلسٹک اور کروز میزائلز کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے
NASAMS – ناروے اور امریکہ کا مشترکہ نظام، جو درمیانے فاصلے سے آنے والی فضائی خطرات کے خلاف مؤثر سمجھا جاتا ہے
Crotale NG – فرانسیسی سسٹم جو قریبی رینج کے دفاع کے لیے ہے
VL MICA – ایک 360 ڈگری کوریج دینے والا جدید فضائی دفاعی نظام
C-RAM & Avenger – جو راکٹس، مارٹرز اور ڈرونز کے خلاف فوری ردعمل دیتا ہے
یہ تمام نظام قطر کے پاس موجود ہیں۔ تو پھر یہ کیوں خاموش رہے؟ کیا ان کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی؟ کیا حملہ اتنا خاموش اور اندرونی تھا کہ ریڈار پر نہیں آیا؟ یا پھر قطر نے سیاسی وجوہات کی بنا پر ان سسٹمز کو فعال ہی نہ کیا؟
کیا یہ خاموشی دانستہ تھی؟
یہ سوال اب صرف تکنیکی نہیں بلکہ سیاسی اور سفارتی بھی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں تین ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں:
قطر نے حملے کے رد میں دانستہ خاموشی اختیار کی تاکہ سفارتی بیلنس خراب نہ ہو
امریکہ یا مغربی اتحادیوں نے قطر کو حملے کا جواب دینے یا دفاعی ردعمل دینے سے روک دیا
یہ حملہ اتنی تیز رفتاری سے کیا گیا کہ ڈیفنس سسٹمز کا ایکٹیویٹ ہونا ممکن نہ تھا
ان میں سے ہر امکان قطر کی خودمختاری اور سیکیورٹی پالیسی پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔
اگر مذاکراتی میزیں بھی محفوظ نہیں…
یہ واقعہ صرف قطر کی سیکیورٹی ناکامی نہیں بلکہ عالمی سفارتی نظام کی سب سے بڑی بے بسی ہے۔
اگر دوحہ جیسے غیر متنازع، محفوظ اور غیر جنگی ملک میں مذاکرات کار بھی محفوظ نہیں،
تو کل کو قاہرہ، انقرہ، تہران، ریاض، یا حتیٰ کہ نیویارک میں ہونے والے مذاکرات کس بنیاد پر جاری رہیں گے؟
یہ حملہ دنیا کو بتا رہا ہے کہ اسرائیل نہ صرف جنگ میں بلکہ سفارت کاری میں بھی صرف اپنی شرائط مانتا ہے — اور باقی سب صرف تماشائی ہیں۔
حماس کا ردعمل: حملہ ناکام، مگر پیغام سنگین
حماس نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے رہنما خلیل الحیہ محفوظ رہے، اور اسرائیل کا مقصد صرف مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تھا۔ حماس کے مطابق:
“یہ حملہ ہمیں مذاکرات سے نہیں روک سکتا، لیکن اس سے ثابت ہو گیا کہ اسرائیل کسی بھی جگہ، کسی بھی وقت، امن کے دشمن کے طور پر موجود ہے۔”
یہ بیان ایک واضح پیغام ہے کہ حماس مذاکرات جاری رکھنے پر آمادہ ہے، مگر اسرائیل ان کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
عالمی ردعمل: ایک اور بے جان مذمت؟
اب سوال یہ ہے: دنیا کیا کرے گی؟
کیا قطر کے خلاف کیے گئے اس کھلے جارحانہ اقدام پر صرف ایک رسمی بیان جاری ہو گا؟
یا واقعی اسرائیل سے پوچھا جائے گا کہ بین الاقوامی سرزمین پر میزائل حملہ کس قانون کے تحت کیا گیا؟
اسرائیل کا یہ رویہ سفارت کاری کے عالمی اصولوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔
اگر اس پر بھی خاموشی اختیار کی گئی، تو یہ خاموشی صرف قطر نہیں بلکہ پوری سفارتی دنیا کے لیے خطرہ بنے گی۔
امن کے دشمن کی پہچان کی جائے
دنیا کو اب دوٹوک فیصلہ کرنا ہو گا:
یا تو وہ ہر حملے کے بعد “تحمل” کی تلقین کرتی رہے گی،
یا پھر امن کے دشمن کو نام لے کر روکے گی۔
قطر پر حملہ ایک الرٹ ہے —
اگر آج خاموشی رہی، تو کل نہ کوئی مذاکراتی میز بچے گی، نہ کوئی ثالثی، نہ کوئی امن معاہدہ۔
اور اگر امن کا راستہ بند ہوا، تو جنگ کا دروازہ خودبخود کھل جائے گا۔